مقامی حکومتیں چوائس نہیں لازمی، ہر گورنمنٹ شہریوں کی بجائے اپنے مفاد میں قانون سازی کرتی ہے : سپریم کورٹ
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) بلدیاتی اداروں کو اختیارات کی منتقلی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کا کہنا ہے مقامی حکومتوں کا ہونا کسی کی چوائس نہیں بلکہ لازمی ہے کہ شہریوں کے مفاد کو دیکھ کر قانون سازی ہونی چاہئے لیکن جس پارٹی کی حکومت ہوتی ہے وہ اپنے مفاد کیلئے قانون سازی کرتی ہیں۔ جب اقتدار میں ہوتے ہیں اختیارات منتقل نہیں کرتے اور جب اقتدار میں نہیں ہوتے تو اختیارات منتقل کرنے کی بات کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ میں بلدیاتی اداروں کے اختیارات سے متعلق مقدمات پر سماعت چیف جسٹس پاکستان گلزار احمدکی سربراہی میں 3 رکنی خصوصی بنچ نے کی۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا عمران ٹوانہ کیس میں آرٹیکل 140 a پر تفصیلی فیصلہ دے چکے ہیں۔ ایم کیو ایم کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین نے موقف اپنایا کہ صوبائی اور بلدیاتی حکومتوں کے اختیارات میں فرق کرنا ہوگا۔ چیف جسٹس نے کہا بلدیاتی اختیارات صوبائی یا وفاقی حکومت کو دینا آرٹیکل 140 کے خلاف ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا وفاقی اور صوبائی حکومتیں اختیارات منتقلی سے ہچکچا رہی ہیں۔ حکومت میں ہوں تو اختیارات دینے کو دل نہیں کرتا۔ حکومت میں نہ ہوں تو یہ اختیارات منتقلی کی بات کرتے ہیں۔ وکیل ایم کیو ایم نے کہا تمام سیاسی جماعتوں نے منشور میں اختیارات منتقلی کا ذکر کیا، تاہم عملی طور پر اختیارات منتقلی کی بات آئے تو کوئی کام نہیں ہوتا۔ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کا اختیار ناظم سے لے کر سندھ حکومت کو دیا گیا۔ سالڈویسٹ مینجمنٹ کا اختیار بھی بلدیات سے سندھ حکومت نے واپس لیا۔ دنیا بھر میں ٹائون پلاننگ کنٹرول بلدیاتی حکومتوں کا کام ہے۔ چیف جسٹس نے ایم کیو ایم کے وکیل سے استفار کیا کہ کیا آپ چاہتے ہیں حکومت کو قانون میں ترمیم کی ہدایت کریں؟۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا عدالت قانون سازی کے لیے گائیڈ لائنز دے سکتی ہے،آرٹیکل 140 بلدیاتی حکومتوں کو سیاسی اور مالی اختیارات دیتا ہے۔ کراچی کی بلدیاتی حکومت خود فنڈز جنریٹ کر سکتی ہے؟۔ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ 2014 میں ایم کیو ایم نے بلدیاتی قانون چیلنج کیا تھا۔ سندھ میں کوئی ختیارات مقامی حکومتوں کے پاس نہیں۔ عدالت نے قانون کی بعض شقیں کالعدم قرار دیکر گائیڈ لائن دی تھی۔ کراچی میں ضلع ٹیکس ختم کردیا گیا۔ صوبائی فنانس کمیشن کے ذریعہ بلدیاتی حکومتوں کو ادائیگی ہوتی ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا صوبائی اسمبلی میں ایم کیو ایم نے قانونی سازی کے وقت آواز اٹھائی تھی؟۔ وکیل نے جواب دیا ایم کیو ایم اقلیت میں تھی، اس لیے ان کی بات نہیں سنی گئی۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا سارا کھیل طاقت کو اپنے ہاتھ میں رکھنے کا ہے۔ کیا گارنٹی ہے مقامی حکومتیں اختیارات ملنے پر کام کریں گی۔ ممکن ہے بلدیاتی حکومتیں زیادہ کام خراب کر دیں۔ کراچی کو جو بھی نظام دیا گیا، اس کے کوئی اچھے نتائج نہیں نکلے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا اختیارات کے ساتھ احتساب کی بات بھی ہوگی، جس پر وکیل نے کہا اچھا سے اچھا نظام بھی چوروں کے سپرد کردیں تو رزلٹ زیرو ہوگا، اچھی گورننس کے لیے احتساب بہت ضروری ہے، کراچی کا موجودہ نظام فرشتے بھی نہیں چلا سکتے۔ چیف جسٹس نے کہا کراچی کا موجودہ نظام عوام کو فائدہ نہیں دے رہا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کراچی بڑا شہر ہے لیکن اسلام آباد میں بھی اختیارات کا مسئلہ ہے۔ ایم کیو ایم کے وکیل نے کہا فی الحال تو کراچی میں گٹر صاف کرنے کا اختیار بھی وزیراعلی کے پاس ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا پانچ سال ایم کیو ایم نے کیا کیا۔ مئیر کراچی نے تو شہر کا حلیہ بگاڑ دیا۔ گھروں میں پانی تھا لوگ مر رہے تھے کے ایم سی کا عملہ بارشوں میں کہیں نظر نہیں آ یا۔ کے ایم سی ملازمین کو پانچ ارب تنخواہ دی جاتی ہے ۔ پانچ ارب لینے والے کام کرتے نظر کیوں نہیں آ تے۔ آئیڈیل قانون سازی بھی کرلیں تو کیا سارے مسائل ختم ہوجائیں گے۔ سارا عملہ کاغذوں میں ہے تنخواہیں کوئی اور کھا رہا ہے۔ چیف جسٹس کے ریمارکس پر وکیل نے کہا ایم کیو ایم کی کارکردگی کا دفاع نہیں کروں گا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کے پی کے اور بلوچستان کے بلدیاتی اختیارات صرف کاپی پیسٹ ہیں۔ ہر اقتدار میں آنے والی جماعت خود کو فائدہ دینے کیلئے قانون سازی کرتی ہے۔ سندھ کا بلدیاتی قانون نہ 3 میں ہے نہ 13 میں۔ شہریوں کا مفاد دیکھ کر قانون سازی ہونی چاہیے۔ وکیل نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہاسندھ کا موجودہ نظام بنایا ہی فیل ہونے کے لیے ہے، سندھ بلدیاتی قانون کی شق 74 اور 75 آئین سے متصادم ہیں، شق 74 کے تحت صوبائی حکومت جو اختیار چاہے بلدیات سے واپس لے سکتی ہے۔ سماعت کے اختتام پر چیف جسٹس نے بتایا کہ آئندہ دو ہفتہ بنچ دستیاب نہیں ہوگا، اپنے دلائل کو قانونی نقاط تک محدود کریں۔ عدالت نے اپنے حکم میں تحریک انصاف کی درخواست پر رجسٹرار اعتراضات کالعدم قرار دے دیتے ہوئے سندھ حکومت، اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل سندھ کو نوٹسز جاری کردیے۔ عدالت نے تمام وکلا سے تحریری دلائل طلب کرلیے۔ سماعت اکتوبر کے دوسرے ہفتہ تک ملتوی کردی گئی۔ کیس کی سماعت کے دوران اسد عمر ، ن لیگ کے احسن اقبال، سابق مئیر کراچی وسیم اختر، بیرسٹر سیف، فردوس شمیم نقوی، لیگی رہنما دانیال عزیز، پی پی پی رہنما فرحت اللہ بابر کمرہ عدالت میں موجود تھے۔