بھارتی پارلیمنٹ کو کشمیر کی تقسیم کا آئین ختم کرنے کا اختیار نہیں‘ رکن پارلیمنٹ
نئی دہلی(کے پی آئی)نیشنل کانفرنس کے جنوبی کشمیر کے رکن بھارتی پارلیمان جسٹس ( ر) حسنین مسعودی نے جموں وکشمیر سرکاری زبان بل 2020 کو بھارتی آئین کے منافی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ قانون جموں و کشمیر تنظیم نوایکٹ کا نتیجہ ہے ، جس کی جوازیت ہندوستان کی عدالت عظمی میں زیر سماعت ہے۔کے پی آئی کے مطابق لوک سبھا میں جموں و کشمیر سرکاری زبانوں کے بل پر بات کرتے ہوئے مسعودی نے کہا کہ یونین آف انڈیا سے الحاق کے وقت تک جموں و کشمیر ایک خود مختار ملک تھا جس کا اپنا آئین تھا جو دوسرے راجواڑوں کے برعکس 1950تک برقرار رہا۔ اس کے بعد ہندوستان کے آئین نے جموں و کشمیر کو اپنا آئین بنانے کی سہولت فراہم کی۔بعد ازاںجموں و کشمیر نے اپنی آئین ساز اسمبلی کا قیام عمل میں لایا جس نے 1957میں اپنا کام مکمل کرکے ریاست کو آئین دیا۔ انہوں نے کہا کہ مہاراجہ پرتاپ سنگھ نے 1899 میں اردو کو جموںوکشمیر کی سرکاری زبان بنایا تھا اور جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی نے بھی اردو کو ہی ریاست کی سرکاری زبان رکھا۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی پارلیمنٹ کو اختیار نہیں ہے کہ وہ جموں وکشمیر کو دو بھارتی علاقوں میں تقسیم کرکے اس کے آئین کو ختم کردے۔جموں وکشمیر کے آئین میں ترمیم کرنے کے لئے پارلیمنٹ کی قانون سازی کی غیر آئینی قرار دیتے ہوئے مسعودی نے کہا کہ ریاست کا آئین ابھی بھی نافذ ہے اور اردو، جو ریاستی آئین کی دفعہ 145 کے تحت ریاست کی سرکاری زبان ہے ، اب بھی جموں وکشمیر کی سرکاری زبان ہے ۔آئین کو منسوخ نہیں کیا جاسکتا ہے اور پارلیمنٹ اس کو منسوخ کرنے کا اختیار نہیں رکھتی۔ آئین کو صرف آئین ساز اسمبلی یا رائے شماری کے ذریعہ ہی تبدیل کیا جاسکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرکے جموں وکشمیر کا آئین کالعدم نہیں کیا جاسکتا۔ یہ اب بھی نافذ العمل ہے۔