سانحہ اے پی ایس: سپریم کورٹ کے حکم پر رپورٹ جاری، سزا اوپر سے شروع کرنا ہوگا: چیف جسٹس
اسلام آباد (چوہدری اعظم گِل) سپریم کورٹ کے حکم پر سانحہ اے پی ایس کی رپورٹ پبلک کر دی گئی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سانحہ اے پی ایس سکیورٹی کی ناکامی ہے۔ دوسری جانب چیف جسٹس پاکستان نے کہا ہے کہ ملک کا المیہ ہے کہ حادثہ کے بعد صرف چھوٹے اہکاروں پر ذمہ داری ڈال دی جاتی ہے۔ حکومت کو اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ آئندہ ایسا واقعہ رونما نہ ہو۔ چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ واقعہ میں ملوث لوگ گرفتار بھی ہوئے اور انہیں سزابھی دی جاچکی ہے۔ انسانی طورپرجوکچھ ممکن ہے حکومت کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بھی حقیقت ہے میں متاثرہ والدین کیساتھ آنکھیں نہیں ملا سکتا۔ چیف جسٹس نے متاثرہ والدین سے استفسار کیا کہ آپ بتائیں آپ حکومت سے کیا چاہتے ہیں؟ متاثرہ والدین نے مطالبہ کیا کہ سکیورٹی پر مامور لوگوں کو ہی نہیں اعلی عہدے پر بیٹھے ذمہ داروں کو بھی سزا ملنی چاہیے۔ ایک ہال میں سب کو جمع کرکے قتل کیا گیا، دہشتگردی نہیں بلکہ ٹارگٹ کلنگ ہوئی ہے۔ ہم لوگ زندہ قبر میں دفن ہوگئے۔ جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ یہ صرف آپ کا دکھ نہیں ہم سب کا دکھ ہے، پوری قوم کا دکھ ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ان تمام لوگوں کا بھی پتہ چلے جو سکیورٹی پر ذمہ دار تھے اور انکی ذمہ داری میں بندوقوں سے بھری گاڑیاں آگئیں۔ اٹارنی جنرل سن لیں یہ متاثرین کیا چاہتے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ملک کا المیہ ہے کہ حادثے کے بعد صرف چھوٹے اہلکاروں پر ذمہ داری ڈال دی جاتی ہے۔ اب اس ریت کو ختم کرنا ہوگا۔ آپ کو سزا اوپر سے شروع کرنا ہوگی۔ جو سکیورٹی کے ذمہ دارتھے انکے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے۔ اتنا بڑا سیکیورٹی لیپس کیسے ہوا؟۔ سکیورٹی اداروں کے پاس اطلاعات تو ہونی چاہیے تھی، جب عوام محفوظ نہیں تو بڑی سکیورٹی کیوں رکھی جائے۔ عدالت نے حکومت کو کمیشن رپورٹ پر لائن آف ایکشن بنانے اور ذمہ داران کیخلاف سخت کاروائی کا حکم دیتے ہوئے سماعت ایک ماہ کے لئے ملتوی کر دی۔ رپورٹ میں کہا گیاہے کہ دھکمیوں کے باجود سکیورٹی گارڈز کی تعداد کم رکھی گئی اور درست مقامات پر تعیناتی نہیں کی گئی۔ دھماکوں اور شدید فائرنگ میں سکیورٹی گارڈز جمود کا شکار تھے۔ دہشتگرد سکول کے عقب سے بغیر کسی مزاحمت داخل ہوئے، سکیورٹی گارڈز نے مزاحمت کی ہوتی شاید جانی نقصان اتنا نہ ہوتا، غداری سے سکیورٹی پر سمجھوتہ ہوا اور دہشتگردوں کا منصوبہ کامیاب ہوا، افغانستان سے دہشتگرد ممکنہ طور پر مہاجرین کے روپ میں داخل ہوئے، اور دہشتگردوں کو مقامی افراد کی طرف سے ملنے والی سہولت کاری ناقابل معافی ہے، اپنا ہی خون غداری کر جائے تو نتائج بہت سنگین ہوتے ہیں، کوئی ایجنسی ایسے حملوں کا تدارک نہیں کر سکتی بالخصوص جب دشمن اندر سے ہو، گاڑی کو دہشتگردوں نے آگ سکیورٹی اہلکاروں کو دھوکہ دینے کیلئے لگائی تھی، جس پر گشت پر مامور سکیورٹی اہلکار دہشتگردوں کی جانب سے جلائی گئی گاڑی کی جانب گئے تاہم گشت پر مامور سکیورٹی اہلکاروں کی دوسری گاڑی نے پہنچ کر دہشتگردوں کا مقابلہ کیا، نیکٹا نے عسکری مراکز، حکام اور انکی فیملیز پر حملوں کا عمومی الرٹ جاری کیا، نیکٹا الرٹ کے بعد فوج نے دہشتگردوں کیخلاف کارروائیاں شروع کیں، اے پی ایس پشاور سانحہ کے شہید بچوں کے والدین نے سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ ہمیں کمیشن کی رپورٹ فراہم کی جائے، ہم اس رپورٹ کی روشنی میں اپنے بچوں کا کیس لڑنا چاہتے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ سانحہ کے اصل زمہ داروں کا تعین ہو، ہمیں اس سے غرض نہیں کہ فائرنگ کس نے کی، ہمارے بچے واپس نہیں آئینگے لیکن اس اقدام سے باقی بچوں کو تحفظ ملے گا، انصاف کے حصول لیے آخری وقت تک لڑتے رہیں گے، عدالتی فیصلے سے مطمئن نہ ہوئے تو اگلے اقدام کے بارے میں سوچیں گے، 16 دسمبر کو شہید بچوں کے ایصال ثواب کیلئے قرآن خوانی رکھی ہے جس میں شرکت کیلئے چیف جسٹس کو دعوت دی ہے، چیف جسٹس نے برسی پر آنے کی دعوت قبول کی ہے۔