شیخ رشید کو لگام ڈالنے، رانا ثناء اللہ کی بات سننے اور نئے صوبے بنانے کی ضرورت!!!!
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی آل پارٹیز کانفرنس میں نفرت آمیز تقریر کے بعد وزیراعظم عمران نے حکومت کے ترجمانوں، وفاقی کابینہ کو ہدایت کی کہ اپوزیشن کے سوالات اور ان کی تنقید کا منطق اور دلیل کے ساتھ جواب دیا جائے۔ وزیراعظم کی سوچ پر عمل کیا جاتا تو ناصرف سیاسی درجہ حرارت کو کم کیا جا سکتا تھا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ گفتگو، بات چیت اور مل بیٹھنے کے راستے بھی کھلے رہتے۔ اس عمل سے یقینی طور پر سیاسی قیادت کو تحمل مزاجی کے ساتھ بات چیت کا موقع ملتا لیکن ہوا کچھ یوں کہ وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر ان کے وزراء اور ترجمانوں نے تو عمل نہیں کیا لیکن اپوزیشن نے وزیراعظم کی اس سوچ پر نہایت مثبت ردعمل دیا ہے۔ آل پارٹیز کانفرنس کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کو دیکھتے ہوئے اپوزیشن جماعتیں بالخصوص مسلم لیگ ن مسلسل دلیل، منظق اور تحمل مزاجی کے ساتھ گفتگو کر رہی ہے۔ جمعرات کو خواجہ سعد رفیق نے بہت اچھی گفتگو کی ممکن ہے ان کی اپنی جماعت کے ایک حلقے میں اس گفتگو کو ناپسند کیا گیا ہو لیکن جمہوری نظام کی بقا اور پارلیمانی روایات کے پیش نظر انہوں نے سیاسی درجہ حرارت کو کم کرنے اور تناؤ کم کرنے کے لیے اپنا کردار بہتر انداز میں نبھایا ہے۔ خواجہ سعد رفیق کے بعد رانا ثناء اللہ نے بھی منطق کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے حالات کو قابو میں رکھنے کے حوالے سے گفتگو کی ہے۔
رانا ثناء اللہ کہتے ہیں کہ سیاستدان کا کام تقریر اور ملاقاتیں کرنا ہے۔ اگر سیکیورٹی کے معاملے پر متعلقہ ادارے سے ملاقات ہوئی ہے تو اس میں تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن یہ جو ان گائیڈڈ میزائل فائر ہوا ہے یہ حکومت کو لے ڈوبے گا۔ اگر محمد زبیر ملاقات کی وضاحت کریں تو اس گفتگو کا نقصان پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کسی ادارے یا پھر ریاست کو ہو گا اس کا اچھی طرح سے جائزہ لے لیں اس کے بعد اگر کسی کو تماشا لگانا ہے تو لگائیں۔
رانا ثناء اللہ کی باتوں میں وزن ہے اور جان ہے اور انہی خطوط پر حکومت کو سوچنے کی ضرورت ہے ناصرف حکومت بلکہ افواج پاکستان کو بھی اس پر ایکشن لینا چاہیے کیونکہ چند دنوں سے لگے بیانات کے اتوار بازار کی وجہ سے عوامی سطح پر فوج کی ساکھ کو نقصان پہنچے گا۔ عسکری قیادت کی سیاست دانوں سے ملاقاتیں معمول کا حصہ ہیں یہ ہوتی رہتی ہیں اور یہ باہمی اعتماد کے رشتے کے تحت ہی ہوتی ہیں۔ یا تو یہ ملاقاتیں اعلانیہ ہونی چاہئیں اگر اعلانیہ نہیں ہوتی ہیں تو پھر یہ کوئی طریقہ نہیں ہے کہ سربازار کپڑے دھونے شروع کر دیے جائیں اگر ایسا ہو گا چوک میں کپڑے دھوئے جائیں گے تو چھینٹے سب پر گریں گے۔ کیا اس گند کے لیے سب تیار ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کو فوری طور پر حرکت میں آنا چاہیے اپنے وزراء کی بیان بازی پر مکمل طور پر پابندی لگائیں۔ میڈیا کے لیے وزیر اطلاعات پہلا اور آخری انتخاب ہوں وہ ٹیلیویژ ن پر جائیں حکومت کا موقف اور پالیسی میڈیا اور عوام کے سامنے رکھیں۔ بالخصوص شیخ رشید کو لگام ڈالیں کیونکہ یہ جب بھی منہ کھولیں گے ماحول میں بدبو ہی پھیلے گی ان کے بولنے سے کبھی خیر برآمد نہیں ہو گی۔ یہ اس طرح کے بیانات سے فوج کے ساتھ اپنا تعلق ظاہر کر کے مصنوعی طاقت حاصل کرنا چاہتے ہیں اوربغیر سوچے سمجھے بیانات دئیے جا رہے ہیں اس کا نقصان حکومت، نظام اور فوج کو تو بعد میں ہو گا سب سے پہلے اس کا نقصان پاکستان کو ہو گا۔ ملک دشمن اس صورتحال سے فائدہ اٹھائیں گے۔ عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی اور ہمارے سیاسی عدم استحکام سے دشمن اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔ شیخ رشید سے تو وزرات واپس لے لینی چاہیے ملکی تاریخ کے ناکام ترین وزیر ہیں شیخ رشید کی بدترین کارکردگی کو دیکھ کر تو لوگ پیپلز پارٹی کے دور کو یاد کر رہے ہیں۔ وزیراعظم وزیر ریلوے کو پابند کریں کہ وہ اپنے کام پر توجہ دیں اپنے کام سے کام رکھیں۔ ن سے ش نکلتا ہے یا ش ن سے الگ ہوتا ہے شیخ رشید کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ انکی ہر وقت نفرت انگیز، منفی اور فضول گفتگو نے ماحول کو بدبودار کر رکھا ہے۔ عوام نے انہیں ووٹ ن کو ش سے الگ کرنے کے لیے نہیں بلکہ مسائل حل کرنے کے لیے دئیے ہیں اور انہوں نے دو سال میں سوائے حادثات اور بیان بازی کے کچھ نہیں کیا۔ عوام ان سے دو سال کی کارکردگی کا جواب مانگ رہی ہے ناصرف شیخ رشید بلکہ پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت سے جواب مانگا جا رہا ہے۔ ادویات کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے، اشیائ خوردونوش کی قیمتیں کسی کے قابو میں نہیں ہیں۔ عام آدمی بدحال ہو چکا ہے۔ ان مسائل کو حل کرنے کے بجائے وزراء اس بیان بازی میں الجھے ہوئے ہیں جس کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پی ٹی آئی کے وزراء ایسی بیان بازی سے ناصرف وزیراعظم کی ہدایات کو نظر انداز کر رہے ہیں بلکہ عوامی مسائل سے توجہ ہٹانے کے ساتھ ساتھ افواجِ پاکستان کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچا رہے۔ دنیا بھر میں حکومت اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ اہم قومی معاملات پر اتحاد اور یکسوئی کا مظاہرہ کرتے ہیں کہیں ایسا شور نہیں مچایا جاتا نہ ہی عسکری قیادت سے ملاقاتوں کا ایسے شور ہوتا ہے۔ اخلاقی طور پر اور ملکی سلامتی کے پیشِ نظر ایسی ملاقاتوں کو منظر عام پر نہیں آنا چاہیے۔ بلکہ اعتماد کی فضا قائم ہونی چاہیے اور سب کو مل کر ملک و قوم کو درپیش مسائل کے حل میں کردار ادا کرنا چاہیے لیکن جب تک شیخ رشید کے منہ کو ٹیپ نہیں لگائی جائے گی اتفاق رائے پیدا ہونے کی کوئی امید نہیں ہے۔ جمعیت علمائے اسلام نے جو کہا ہے پھر ایسی باتیں تو ہوں گی بلکہ پھر دونوں طرف کی باتیں ہوں گی۔ اس پر فتن دور بیان بازی میں رانا ثناء اللہ کے موقف کی حمایت اور تائید کی جانی چاہیے۔ میاں نواز شریف نے جس انداز میں اپنی جماعت کے اراکین کو عسکری قیادت سے ملاقاتوں سے روکا ہے یہ طرز عمل بھی مناسب نہیں ہے۔ رانا ثناء اللہ ہی کہہ رہے تھے کہ ایسا ممکن نہیں کہ اگست ستمبر میں ہونے والی ملاقاتوں سے میاں نواز شریف لاعلم ہوں۔ ذاتی اختلافات و مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ رانا ثناء اللہ کہتے ہیں کہ جنوبی پنجاب محاذ کس طرح بنا،بنی گالہ میں پٹے کس نے پہنائے تھے، پی ٹی آئی کے ٹکٹوں کی تقسیم کس طرح سے ہوئی، کس طرح سے لوگوں کو بلا کر کہا گیا ن لیگ کا ٹکٹ نہ لیں، پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر لڑیں یا پھر آزاد ہو جائیں۔
رانا صاحب کی باتیں ٹھیک ہیں تمام سیاسی طاقتوں، ملکی اداروں، سیاسی و عسکری قیادت کو اس وقت متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ یہ تمام باتیں ملک کے مفاد میں ہرگز نہیں ہیں۔ اس آگ کو جلد از جلد بھجایا جانا چاہیے۔ وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ عوامی مفاد کی قانون سازی کے لیے اپوزیشن جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں دوسری طرف مسلم لیگ ن نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ میں حکومت سے کسی قسم کا تعاون نہیں کیا جائے گا۔ یہ ڈیڈ لاک ہی ہے۔ وزیراعظم اگر اپوزیشن جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں تو انہیں اپنے وزراء کو قابو میں کرنا ہو گا وہ ہر روز صبح اٹھتے ہیں اور رات سوتے وقت تک آگ لگائے رکھتے ہیں یہ رویے پارلیمانی نظام کے لیے زہر قاتل ہیں۔ ماضی میں اپوزیشن حکومت کے لیے مسائل پیدا کرتی تھی یہ پہلی حکومت ہے اس کے اپنے وزراء ہی مسائل کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔ وزیراعظم اس مسئلے پر آگے آئیں، اپوزیشن کو خود بلائیں، بات چیت کریں، آگ بھجائیں۔ خدارا شیخ رشید کو قابو کریں اب اس نے آڈیو لیک کرنے کی بات کی ہے۔ یہ عمل کسی بھی طرح ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔ دفاعی اداروں کو چاہیے کہ وہ ان بیانات کے بارے واضح موقف اختیار کریں۔ اس آگ کو بھجانے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ ایسے حالات میں کون سرمایہ کاری ہو گی، کون سرمایہ کاری کرے گا، کون ترقیاتی منصوبوں کی طرف توجہ دے گا۔ ان حالات میں جب حکومت ہر وقت اپوزیشن کے ساتھ الجھی رہے، وزراء کے پاس اپوزیشن پر حملے کرنے یا پھر سیاسی مخالفین کو جواب دینے کے علاوہ کوئی کام نہ ہو تو اشیاء خوردونوش کی طرف توجہ کون دے گا، کس کو علم ہو گا کہ ادویات کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔ چند دنوں میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو جائے گا۔ بجلی مزید مہنگی ہو جائے گی، سردیاں آنے والے ہیں گیس نہیں ملے گی، گیس مہنگی ہو جائے گی اور اس سہولت سے فائدہ اٹھانے والے خوش قسمت ہونگے۔ سیاست دانوں کی اس لڑائی میں ملک دشمنوں کو حملے کرنے کا موقع ملے گا تو دوسری طرف عام آدمی کے لیے زندگی مزید مشکل ہو گی۔ ان حالات میں صرف حکومت کے سنجیدہ اقدامات ہی سیاسی درجہ حرارت میں کمی لا سکتے ہیں۔
رانا ثناء اللہ نے جنوبی پنجاب محاذ کی بات بھی کر دی ہے اس محاذ سے تعلق رکھنے والوں کو اس کا سیاسی جواب بھی دینا چاہیے اور عوام سے کیے گئے وعدوں کا جواب اپنے ووٹرز کو دینا چاہیے، کیا اس محاذ سے تعلق رکھنے والوں کا ہدف صرف پارلیمنٹ میں جانا تھا یا پھر ان کا مقصد جنوب کے عوام کو ان کا حق دلانا تھا۔ جنوب کے عوام نے تو سیاسی رہنماؤں کو پارلیمنٹ میں پہنچا دیا لیکن ووٹرز سے کیے گئے وعدوں کا کیا ہوا وہ سب وعدے حلقے سے اسلام آباد جاتے ہوئے راستے میں کہیں رہ گئے ہیں اب اسلام آباد سے واپسی پر وہ وعدے ساتھ لائیں گے تاکہ آئندہ انتخابات کے لیے ایک مرتبہ پھر پرانے وعدے عوامی جذبات کی توہین کے لیے نئی پیکنگ میں پیش کیے جائیں گے۔
غدار الطاف حسین کے پاکستان میں موجود سیاسی ساتھیوں یا ان کے سیاسی وارثین کی خواہش ہے کہ سندھ تقسیم کیا جائے نئے صوبے بنائے جائیں ان کا یہ مطالبہ تو جائز ہے۔ صوبوں کی تقسیم مسائل کا حل ہے لیکن متحدہ قومی موومنٹ والے اس بات کا تعین بھی کریں کہ انہوں نے اب بھی عوام کے سینوں میں گولیاں اتارنی ہیں یا پھر عوام کو سینے سے لگانا ہے۔ یا پھر صوبے بننے کے بعد کراچی کو وسیم اختر جیسے نالائقوں کے حوالے کرنا ہے۔ متحدہ کو یہ بھی احساس کرنا ہو گا کہ وہ کراچی کے عوام کی واحد نمائندہ جماعت نہیں ہے وہاں ایم کیو ایم کے ہی کئی دھڑے ہیں جبکہ، پاکستان تحریکِ انصاف، پاکستان پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی بھی موجود ہے۔ ان جماعتوں کو بھی اتنا ہی حق ہے جتنا ایم کیو ایم کو ہے۔ متحدہ کو کراچی کے ساتھ ساتھ سکھر اور حیدرآباد کے عوام کو بھی گلے لگانا ہو گا۔ طرز سیاست اور کام کرنے کا انداز بھی بدلنا ہو گا۔ اب انتخابات بھائی کے نام پر نہیں بلکہ کارکردگی سے جیتنا ہوں گے۔ نہ ہی اب دھاندلی کی جا سکے گی۔ بدلی ہوئی صورتحال میں ایم کیو ایم کے لیے حالات اتنے سازگار نہیں ہیں۔ ایک ریلی یا اجتماع انتخابات میں کامیابی کی ضمانت نہیں ہے۔ کراچی میں ریلیاں تو وہاں موجود ہر سیاسی جماعت کی بہت بڑی ہوتی ہیں۔ اس لیے مستقبل کی سیاست اور سیاسی کھیل میں کامیابی کے لیے انہیں بھتے، خوف، دھمکی اور دہشت کی سیاست سے باہر نکلنا ہو گا۔