نوابزادہ نصر اللہ،چودھری ظہور الہی کی یاد،فواد چودھری کا دعویٰ،فاشسٹ متحدہ اور شہباز شریف!
نوابزادہ نصر اللہ خان کی برسی پر انہیں یاد کیا جا رہا ہے۔ انہیں یاد کیا جانا چاہیے۔ وہ جمہوریت کی حقیقی آواز تھے۔ ان کی زندگی سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرتے گذری۔ وہ ہمیشہ فوجی حکمرانوں اور سیاسی ادوار کی آمریت کے خلاف برسرِ پیکار رہے۔ انہوں نے اتنا بھرپور سیاسی کیرئیر گذارا ہے کہ کوئی بھی سیاسی سرگرمی، اپوزیشن اتحاد اور کل جماعتی کانفرنس نوابزادہ نصر اللہ کے بغیر مکمل نہیں سمجھی جاتی تھی بلکہ ان کے بغیر اپوزیشن کی کوئی بھی تحریک شروع ہی نہیں ہوتی تھی۔ ایوب خان کے صدارتی انتخابات میں نوابزادہ نصر اللہ خان نے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دیا یہ ان کے سیاسی کیرئیر کی ایک بڑی جدوجہد ہے۔ انہیں اپوزیشن کو متحد کرنے اور سیاست دانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے میں ملکہ حاصل تھا۔ لوگ اقتدار کی کوشش کرتے ہیں اور نوابزادہ نصر اللہ خان کی ساری عمر حزب اختلاف کو اکٹھا کرتے گذری۔ اللہ ان کے درجات کو بلند فرمائے۔
چودھری ظہور الٰہی کی برسی بھی گذری ہے۔ چودھری شجاعت حسین کو دیکھتے ہیں تو ظہور الٰہی کی یاد تازہ ہوتی ہے۔ ظہور الٰہی نے ایک مقصد کے تحت زندگی گذاری۔ انہوں نے ختم نبوت تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ چودھری ظہور الہی کی سیاسی زندگی میں اس سے بڑی کوئی خدمت نہیں ہو سکتی کہ ختم نبوت کے حوالے سے انہوں نے واضح موقف اختیار کیا۔ وہ ساری زندگی ملک و قوم کی خدمت کرتے رہے۔ لوگ آج بھی ان کی عوام دوستی اور خدمت کے جذبے کو یاد کرتے ہیں۔ چودھری ظہور الٰہی کی سب سے بڑی خوبی ہی اپنے لوگوں کے مسائل پر توجہ دینا اور عام آدمی کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنا ہے۔ چودھری شجاعت حسین نے اپنے فیصلوں سے خود کو ہر لحاظ سے ایک بڑے انسان کے جانشین کے طور پر منوایا ہے۔ چودھری شجاعت حسین نے اپنے بزرگوں کی روایات کو آگے بڑھایا ہے۔ انہوں نے اپنی عوام دوستی اور خاندانی روایات کو زندہ رکھا ہے۔ اپنے بزرگوں کے تعلقات کو نبھاتے ہوئے ان کی یادوں کو زندہ رکھا ہے۔ آج عام آدمی کو ہر طرف سے مسائل نے گھیرا ہوا ہے۔ اس وقت میں ہمیں ہر جگہ چودھری ظہور الہٰی جیسے عوام دوست افراد کی ضرورت ہے۔ سیاست عوام کی خدمت کے لیے کی جائے تو لوگ یاد رکھتے ہیں۔ چودھری ظہور الٰہی کی اس برسی پر دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو بلند فرمائے۔ آمین میاں نواز شریف کی مسلم لیگ ن کے میاں شہباز شریف کہتے ہیں کہ میرے قائد نے اپنی تقریر میں کوئی بات آئین و قانون کے خلاف نہیں کی، مفاہمتی سیاست کا طعنہ دینے والے یہ بتائیں کہ کیا ذاتی فائدہ اٹھایا ہے۔ عمران خان مجھے ہر حال گرفتار میں کروانا چاہتے ہیں۔
میاں شہباز شریف کہتے ہیں کہ بڑے بھائی نے آئین و قانون کے خلاف کوئی بات نہیں کی، کیا کوئی آئین و قانون انہیں مجرم ہونے کے باوجود ملک سے باہر رہنے کی اجازت دیتا ہے، کیا کوئی آئین و قانون اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ملک کی عدالت کسی شخص کو سرنڈر کرنے کا حکم دے اور وہ بیرون ملک بیٹھ کر قومی سلامتی ہے اداروں اور عدلیہ کو تنقید کا نشانہ بناتا رہے۔ بڑے بھائی کی تقریر کا دفاع کرنے والے چھوٹے بھائی عوام کو اپنی سیاسی زندگی کے بارے کھل کر بتائیں کہ ان کے خاندان نے کب کب اور کیسے اس ملک کے خزانے کو نقصان پہنچایا ہے اور ملک کے سیاسی ماحول کو آلودہ کیا ہے، اداروں میں وائٹ کالر کرائم کو معمول بنا کر کیسے پورے نظام کو تباہ کیا ہے۔ کیا یہ سب بھی کسی آئین و قانون میں لکھا ہے یا پھر آئین صرف وہی قابل قبول ہے جو شریف خاندان کو ایوان وزیراعظم اور ایوان وزیر اعلیٰ میں بٹھا دے۔ جہاں تک انہیں گرفتاری کا خوف ہے تو یہ ان کے اپنے اعمال کا کیا دھرا ہے وہ قومی خدمت میں گرفتار نہیں ہو رہے بلکہ کرپشن الزامات پر پکڑے جا رہے ہیں۔ ان کے پاس ثبوت و شواہد ہیں تو اپنا کیس عدالت کے سامنے لڑیں خود کو بے گناہ ثابت کریں۔ کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ کرپشن الزامات کو غلط ثابت کریں اگر کوئی کرپشن نہیں کی تو پھر خوف کس بات کا ہے۔ ان کا ایک صاحبزادہ بیرون ملک ہے دوسرا صاحبزادہ گرفتار ہے یہ سارے فساد مال و دولت کی ہوس کی وجہ سے ہیں۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ میاں شہباز شریف کو عدالت سزا سنائے اور وہ اسے تسلیم کر لیں یقیناً ایسا نہیں ہے میاں شہباز شریف کو صرف وہی عدالت اچھی لگتی ہے جو ان سے پوچھ کر فیصلہ کرے یا فیصلہ وہ آئے جو ان کے مفادات سے متصادم نہ ہو۔ اگر اس خاندان کو عدالتی نظام سے اتنی ہی شکایات ہیں تو پھر یہ ان کی اپنی نااہلی ہے۔ ان کے بھائی تین مرتبہ ملک کے وزیراعظم رہے اس دوران اگر وہ انصاف کے شعبے کو مضبوط کرنے کے لیے کچھ نہیں کر سکے تو آج چیخ و پکار کیوں کر رہے ہیں۔ اگر انہوں نے عدالتی نظام کو مضبوط بنانے کے لیے کام کیا ہوتا اور انہوں نے آلودگی نہ پھیلائی ہوتیںتو آج ہر عام آدمی کو سستا اور فوری انصاف مل رہا ہوتا۔ انہوں نے اپنے دورِ حکومت میں اداروں کو تباہ کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا۔ آج حکومت میں نہیں ہیں تو اداروں میں برائیاں اور خامیاں نظر آ رہی ہیں تو ان خامیوں اور برائیوں میں اپنا حصہ بھی عوام کو بتائیں۔ میاں شہباز شریف اپنا کیس عدالت میں لڑیں ہم بھی نگاہ رکھیں گے کہ حکومت کہیں ان کے ساتھ ناانصافی تو نہیں کر رہی، کہیں انہیں غیر ضروری طور پر نشانہ تو نہیں بنایا جا رہا۔ گرفتاری کا خوف تو انہیں ہے اور یہ خوف مچھر کاٹنے کا ہے۔ جہاں تک ان کا یہ کہنا ہے کہ حکومت کو جتنا وقت دینا تھا دے چکے اب کوئی وقت نہیں دیا جائے گا۔ ان سے وقت مانگ کون رہا ہے جب کل جماعتی کانفرنس میں ان کے بڑے بھائی پورے ملک پر الزام تراشیاں کر سکتے ہیں اس وقت کسی نے نہیں روکا ہے تو اب انہیں کون روک رہا ہے۔ باہر نکلیں اپنی سیاست کو زندہ کریں۔ انہیں پہلے کسی نے نہیں روکا تھا اب بھی کوئی نہیں روکے گا۔ اگر یہ طے کر لیا ہے کہ صرف فساد کی سیاست کرنی ہے صرف اقتدار کی سیاست کرنی ہے اور صرف اسی جمہوریت کی حمایت کرنی ہے جو دونوں بھائیوں کو اعلیٰ عہدوں پر بٹھا دے تو پھر کرتے رہیں۔
احسن اقبال کو بھی شہباز شریف کی گرفتاری کا خوف ہے کہتے ہیں کہ ن لیگ کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے حکومت انہیں گرفتار کرنا چاہتی ہے۔ انہیں کوئی بتائے کہ اگر سیاسی قیادت عوام کے مسائل کی خاطر گرفتار کیا جاتا ہے تو اس کی مقبولیت میں کمی نہیں آتی بلکہ مقبولیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ احسن اقبال کو یہ بھی لگتا ہے کہ سب کچھ گلگت بلتستان انتخابات کی وجہ سے ہو رہا ہے یعنی انہیں اپنی شکست نظر آنا شروع ہو گئی ہے۔ کرپشن کیسز کو سیاسی کیسز کہنا اور عدالت میں بیگناہی ثابت کرنے کے بجائے سیاسی رنگ دینا کہاں کی جمہوریت ہے۔
وفاقی وزیر فواد چودھری کہتے ہیں کہ سائنس و ٹیکنالوجی میں جس ملک کا مستقبل ہے وہ پاکستان ہے۔ ان کے اس بیان کی تائید کی جاتی ہے اور اس سے اتفاق ہے لیکن کیا پاکستان اس منزل تک پہنچ سکتا ہے۔ اگر وفاقی وزیر یہ کہتے ہیں کہ مستقبل ہمارا ہے تو پھر عوام کو یہ بھی بتائیں کہ اس خواب کو تعبیر کیسے دی جا سکتی ہے یہ کیسے ممکن ہے۔ ایسا ملک جس کے پاس تعلیم پر خرچ کرنے کے لیے پیسے نہ ہوں یا ایسا ملک کو تعلیم کے شعبے پر اتنے پیسے خرچ نہ کرے کہ تعلیم آسان اور عام ہو سکے تو وہ ملک سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں ترقی کیسے کر سکتا ہے۔ اگر ہم نے اس میدان میں کامیابی حاصل کرنی ہے تو پھر تعلیمی شعبے کے بجٹ کو بڑھا کر اسے سفارش، اقربا پروری اور رشوت سے پاک کرنا ہو گا۔ اس کے بغیر کوئی راستہ نہیں ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی کے آسمان پر چھا جانے کے دعوے اور تعلیم کے شعبے پر پیسہ خرچ نہ کرنے کی حقیقت تو عوام کو سبز باغ دکھانے کے مترادف ہے۔ فواد صاحب یہ تو کھلا تضاد ہے۔ وزیراعظم عمران خان بھی چاہتے ہیں کہ وہ تعلیم کو عام کریں لیکن اس شعبے میں عملی طور پر کچھ نہیں کیا جا سکا۔ ملک بھر کی جامعات کے مسائل کو دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ تعلیم کا شعبہ بدحالی کا شکار ہے۔ تعلیم کا حصول ہر گذرتے دن کے ساتھ مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ ان حالات میں سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی تعلیم کا حصول تو خواب ہی معلوم ہوتا ہے۔ جہاں بچوں کی بڑی تعداد نے سکول کا دروازہ نے دیکھا ہو وہاں نچلی سطح پر کوئی کام کیے بغیر ایسے بیانات کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ ہمیں زمینی حقیقت کو جانتے ہوئے اقدامات کی ضرورت ہے۔ جب تک ہم اس کام میں توازن پیدا نہیں کریں گے کبھی مقصد حاصل نہیں کر سکتے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے سعید غنی نے سندھ میں اپنی بڑی اور پرانی سیاسی حریف جماعت متحدہ قومی موومنٹ کو فاشسٹ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایم کیو ایم کا بانی متحدہ سے لاتعلقی ڈراما ہے۔ خالد مقبول صدیقی اور عامر خان بھی بانی ایم کیو ایم جیسے ہیں۔ سعید غنی کو شاید یہ سمجھنے یا اس کا اظہار کرنے میں دیر ہو گئی ہے یا اس سے پہلے وہ کسی مصلحت کے تحت یہ بول نہیں سکے۔ ہم مسلسل لکھ رہے ہیں کہ متحدہ قومی موومنٹ کے دھڑوں کو اپنے دہشت گرد ماضی سے جان چھڑانے اور بانی غدار الطاف حسین سے لاتعلقی کو ثابت کرنے کے لیے عملی طور پر کچھ کرنا ہو گا۔ صرف بیانات اور دھڑے کے ساتھ پاکستان لکھ دینا کافی نہیں ہے۔ سعید غنی نے جو کہا ہے وہ ٹھیک ہے یہ بھی حقیقت ہے کہ ایم کیو ایم کی سیاست آج بھی وہیں کھڑی ہے جہاں الطاف حسین کے ساتھ کھڑی تھی ان کا طرز سیاست آج بھی وہی ہے۔ وہ ساری زندگی دھونس، دھاندلی اور گولی کے زور پر جیتتے رہے ہیں۔ اس کھیل سے نکلنا ان کے لیے ممکن نہیں ہے۔ دوسری طرف تلخ حقیقت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے بھی کوٹہ سسٹم لگا کر اردو بولنے والوں، اردو سے محبت کرنے والوں اور ان کے سیاسی نظریات سے اختلاف کرنے والوں دیوار کے ساتھ لگایا ہے۔ بہت زیادتیاں کی ہیں۔ پیپلز پارٹی کی ناانصافیوں نے اردو بولنے والوں کو الگ ہونے پر مجبور کیا اور بدقسمتی سے اس جماعت کی سربراہی ایک غدار کے ہاتھ آ گئی اور ملک کے اعلیٰ دماغ دہشت اور گولی کی سیاست کی نذر ہو گئے۔ الطاف حسین نے ملک کو اندرونی طور پر سب سے بڑا نقصان یہی پہنچایا ہے کہ اس نے ملک کے بہترین افراد کو طاقت کے استعمال پر اکسایا، انہیں نفرت کے راستے پر لگایا اور یہ سب کچھ پاکستان پیپلز پارٹی کی اردو بولنے والوں کے ساتھ ناانصافی کی وجہ سے ہوا۔ پیپلز پارٹی متحدہ قومی موومنٹ کو فاشسٹ کہے لیکن اپنے طرز عمل پر بھی غور کرے۔
کراچی میں لوڈ شیڈنگ جاری ہے، کراچی کے شہریوں کو بدترین لوڈ شیڈنگ کا سامنا ہے۔ گھنٹوں بجلی غائب رہتی ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ یہ وہ شہر ہے جہاں پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ نے دہائیوں تک حکومت کی ہے۔ کے الیکٹرک کو بجلی کی قیمتوں کو بڑھانے اور لوڈ شیڈنگ کرنے کے علاوہ کوئی کام نہیں ہے۔ شہری بے بس ہیں وہ ہر مہینے اس بجلی کا بل جمع کرواتے ہیں جو انہیں دستیاب ہی نہیں ہے۔ کمیٹیاں بنتی رہیں گی، سیاست دان سیاست کرتے رہیں گے اور کراچی کے شہری بنیادی سہولیات سے محروم ہوتے رہیں گے۔