• news

ٹیکسٹائل انڈسٹر ی فعال ہونے سے روئی کی قیمتوںمیں تیزی

رحیم یارخان(بیورو رپورٹ) کئی سالوں بعد پاکستانی ٹیکسٹائل انڈسٹر ی اپنی پوری پیداواری صلاحیت کے مطابق فعال ہونے کے باعث روئی کی قیمتوںزبردست تیزی کا رجحان، ٹیکسٹائل پراڈکٹس کے ریکارڈ برآمدی آرڈرز ہونے لیکن اندرون ملک معیاری روئی کی محدود دستیابی کے باعث ٹیکسٹائل ملز مالکان نے بڑے پیمانے پر روئی درآمدی معاہدے کرنا شروع کر دیئے۔سینئر کاٹن جنرز نے بتایا کہ ٹیکسٹائل ملز کی جانب سے روئی کی بھر پور خریداری دوبارہ شروع ہونے سے گزشتہ ہفتے کے دوران پاکستان میں روئی کی قیموں میں زبردست تیزی کا رجحان سامنے آیا جس کے دوران روئی کی قیمتیں 200سے250روپے فی من اضافے سے پنجاب میں 9ہزار 250روپے جبکہ سندھ میں9ہزار100روپے فی من تک پہنچ گئیں اور توقع ظاہر کی جا رہی ہے کہ رواں ہفتے کے دوران اس کی قیمتوں میں مزید تیزی کا رجحان سامنے آئے گا۔انہوں نے بتایا کہ کرونا کے باعث کئی یورپی ملکوں نے بنگلہ دیش اور بھارت کی بجائے اب پاکستان سے مختلف ٹیکسٹائل پراڈکٹس خریدنے میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا ہے جس کے باعث پاکستانی ٹیکسٹائل ملز کے پاس اس وقت تاریخ کے سب سے زیادہ برآمدی آرڈرز موجود ہیں تاہم اندرون ملک معیاری روئی کی محدود دستیابی کے باعث بڑے ٹیکسٹائل گروپس نے بیرون ملک سے روئی درآمدی معاہدے کرنا شروع کر دیئے ہیں اور توقع ظاہر کی جا رہی ہے کہ اگلے چالیس روز کے دوران یہ درآمدی روئی پاکستان پہنچنا شروع ہو جائے گی۔انہوں نے بتایا کہ بیشتر ٹیکسٹائل گروپس برازیل،امریکہ اور تنزانیہ سمیت دیگر چند افریقی ممالک سے روئی درآمدی معاہدے کر رہے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ملک بھر میں کراپ زوننگ قوانین پر سختی سے عمل درآمد شروع کروانا چاہیئے تاکہ کاٹن زونز میں گنے کی کاشت مکمل طور پر ختم ہونے سے پاکستان نہ صرف کپاس کی پیداوار میں خود کفیل ہو سکے بلکہ گنے کی کاشت انتہائی محدود ہونے سے لاکھوں ملین ایکڑ پانی کی بچت کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی آلودگی میں کمی سے پاکستانی روئی کا معیار بھی بہتر ہونے سے روئی کی درآمد مکمل طور پرختم ہونے سے سالانہ اربوں ڈالر کا زر مبادلہ بچایا جا سکے۔انہوں نے مزید بتایا کہ پنجاب بھر کپاس کی فصل پر اس وقت سفید مکھی اور گلابی سندی کا شدید حملہ بتایا جا رہا ہے جس سے کپاس کی فی ایکڑ پیداوار کم ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا معیار بھی متاثر ہونے کا خدشہ ہے اس لئے محکمہ زراعت کو چاہیئے کہ وہ ہنگامی بنیادوں پر سفید مکھی کو کنٹرول کرنے کے لئے اقدامات کرے تاکہ کپاس کی فصل محفوظ رہ سکے۔
 

ای پیپر-دی نیشن