ہسپتالوں میں مسائل پر سمجھوتہ نہیں ہوگا، اچھے آلات موجود تو لوگ باہر کیوں جاتے ہیں: چیف جسٹس
کوئٹہ (نوائے وقت رپورٹ) سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری میں بلوچستان کے سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ عدالت عظمیٰ نے چیف سیکرٹری کو ہسپتالوں میں دستیاب وسائل‘ مشینری اور حالات سے متعلق جامع رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت دو ماہ تک ملتوی کر دی۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا آپ کے پاس دو ارب روپے کا بجٹ تھا اس کا آپ نے کیا کیا؟۔ سیکرٹری صحت دوشین جمالدینی نے بتایا کہ ہم نے ادویات کی خریداری کی۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ آپ ایسی باتیں نہ کریں۔ دو ارب روپے کی صرف ادویات خریدیں۔ عدالتی احکامات پر کتنا عملدرآمد کیا اور کہاں پر کیا؟۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال کیا کہ 384 مشینوں کی تنصیب کہاں ہوئی‘ کس ہسپتال میں ہوئی؟۔ مشینری کی تنصیب کی کوئی تفصیل نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا یہ بتائیں مشینری کس سے خریدی اور کیا یہ زیراستعمال ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ رپورٹ پر آپ کے دستخط نہیں کل آپ اس سے انکار بھی کر سکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے سیکرٹری صحت سے استفسار کیا خریدی گئی مشینری فعال ہے؟۔ ہمیں علم ہے کہ آپ کے پاس کافی چیزیں موجود ہیں لیکن قابل استعمال نہیں۔ یہ ساری ادھوری چیزیں ہیں جن کا یہاں کام نہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ہم نے سیدھی رپورٹ مانگی تھی سامان آیا‘ کس جگہ لگایا گیا‘ اب قابل استعمال ہے؟ چیف جسٹس نے کہا مختلف ہسپتالوں نے جو ڈیمانڈ دی تھی وہ پوری ہوئی ہے؟۔ سیکرٹری صحت نے کہا کہ جس ہسپتال نے جو ڈیمانڈ کی وہ پوری کر دی گئی ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اس نامکمل رپورٹ کو جامع قرار دینا غلط ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہسپتالوں میں شہریوں کے مسائل ہوتے ہیں اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ رپورٹ میں درج ہے کہ 25 آپریشن ٹیبل 70 کروڑ روپے میں منگوائی گئیں۔ کیا ایک آپریشن ٹیبل تین کروڑ روپے کی ہے؟۔ یہ صرف ٹیبل ہیں یا دیگر آلات اس کے علاوہ ہیں۔ کیا یہ ساڑھے تین کروڑ روپے کی ٹیبل سب سرکاری ہسپتالوں میں ہے؟ اگر ہسپتالوں میں اچھے آلات ہیں تو لوگ باہر سے علاج کیوں کراتے ہیں۔ یہاں کے عوام دوسرے صوبوں میں جا کر علاج کراتے ہیں۔ ہسپتالوں میں آلات‘ مشینری‘ ادویات کی خریداری‘ سٹاف سے مکمل رپورٹ تیار کر کے بھجوا دیں آپ نہیں لیکن نیچے کا سٹاف خریداری میں بہت کچھ کرتا ہے۔ اگر دو ارب روپے ہسپتالوں پر خرچ کرتے تو ان کی حالت تبدیل ہو چکی ہوتی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جب تک مشینری قابل استعمال نہیں تو سب کچھ بیکار ہے۔ سیکرٹری صحت نے کہا کہ اکثر ہسپتالوں میں مسائل کے حل کیلئے کوششیں کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ صوبے کے ہسپتالوں میں ہر ماہ چکر لگائیں سہولیات کا جائزہ لیں صوبے بھر کے ہسپتالوں کے دورے کا شیڈول مرتب کریں دورے کا ایک ماہ سے تین ماہ کا شیڈول تیار کریں۔ جعفر آباد اور نصیر آباد میں حالات خراب ہیں۔