• news

منی لانڈرنگ کیس: شہباز شریف 14 روزہ ریمانڈ پر نیب کے حوالے، اہلیہ، بیٹی کے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری

لاہور (اپنے نامہ نگار سے) احتساب عدالت نے منی لانڈرنگ اور اثاثہ جات کیس میں شہباز شریف کو 14روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے کردیا ہے۔ شہباز شریف نے دوران سماعت اپنا دفاع خود کیا۔ عدالت نے منی لانڈرنگ اور اثاثہ جات کیس میں شہباز شریف کی صاحبزادی جویریہ علی کو حاضری سے مستقل استثنیٰ دینے کی درخواست منظور کر لی۔ جبکہ  نصرت شہباز اور صاحبزادی رابعہ کے پیش نہ ہونے پر انکے  ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے گرفتار کر کے پیش کرنے کا حکم دیدیا۔ نیب نے انتہائی سخت سکیورٹی میں شہبازشریف کو عدالت کے روبرو پیش کیا۔ جج جواد الحسن نے کمرہ عدالت میں رش پر برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ سپورٹرز پیچھے ہٹ جائیں اور ملزم کو آگے آنے دیا جائے، اگر رش کم نہ ہوا تو میں اٹھ کر چلا جائوں گا۔ بعد ازاں شہباز شریف نے کہا کہ میں کچھ کہنا چاہتا ہوں، جس پر جج نے انہیں بولنے کی اجازت دی تو شہباز شریف نے کہا کہ قانون کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ یہ نیب نیازی گٹھ جوڑ ہے۔ میرے وکلاء نے چار دن لگا کہ دلائل مکمل کئے۔ میرے والدین نے محنت کی اور کاروبار سیٹ کیا۔ میں نے اپنے والدین کی جانب سے ملی جائیداد اپنے بچوں کے نام کر دی۔ میں کوئی تنخواہ یا بونس نہیں لیتا لیکن مجھ پر الزام لگایا گیا کہ میرے آفس کہ وجہ سے میرے بچوں کے کاروبار کو فائدہ ملا۔ گزشتہ روز ہائیکورٹ میں 5 دستاویزات سامنے رکھیں۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ہم نے پنجاب میں گنے کی قیمت کم نہیں کی اور نہ ہی میں نے کاشتکار کو نقصان پہنچایا۔ میں نے اپنے بچوں کی ملز کو بھی سرکاری خزانے سے کوئی سبسڈی نہیں دی۔ وفاقی حکومت نے دسمبر 2017 میں 10 روپے فی کلو سبسڈی کا اعلان کیا، سندھ حکومت نے 9 روپے مزید سبسڈی دی لیکن میرے فیصلوں سے میرے بڑے بھائی اور میرے بیٹے کو کروڑوں کا نقصان ہوا۔ اس پر جج احتساب عدالت نے پوچھا کہ آپ کے اقدامات سے خزانے کو کتنا فائدہ ہوا جس پر شہباز شریف نے کہا کہ میرے فیصلوں سے قومی خزانے کو اربوں کا فائدہ ہوا۔ شہباز شریف نے کہا کہ میں خطا کار انسان ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ بیٹا باپ کا اور باپ بیٹے کا ذمہ دار نہیں۔  ایتھنول پر میں نے 2011 میں دو روپے کی ایکسائز ڈیوٹی لگائی، میرا بیٹا ایتھنول کا پلانٹ لگا رہا تھا میں نے پھر بھی ایکسائز ڈیوٹی لگائی، ڈیوٹی کی مد میں ڈھائی ارب روپے جمع کر کے قومی خزانے میں جمع کرائے، موجودہ حکومت نے یہ ڈیوٹی ختم کر دی ہے۔ میرے خاندان نے بھارت سے ہجرت کی اور پاکستان آیا۔ میرے والد شام کو ہندو کی لوہے کی فیکٹری میں نوکری کرتے تھے۔ ہمیں جلا وطن کر دیا گیا لیکن میں حلفیہ کہتا ہوں کہ میں نے قرض اتارنے کے لیے کسی سکیم سے فائدہ نہیں اٹھایا اور نہ ہی میں نے کبھی اپنے آفس کا غلط استعمال کیا۔ میں نے تین ادوار میں ایک دھیلہ تنخواہ لی نہ ہی ٹی اے ڈی اے لیا جبکہ بیرون ملک بھی اپنے پی اے کے کمرے کا خرچ خود اٹھاتا تھا۔ میرے خلاف نیب کے کسی گواہ نے بیان نہیں دیا۔ میں نے پنجاب کے کاشتکاروں کا نقصان نہیں ہونے دیا۔ سرکاری خزانے کا ناجائز استعمال نہیں کیا۔ میں جانتا ہوں یہ پیسہ غربیوں، یتیموں، بیوائوں اور عام شہریوں کا ہے۔ میں نے اس وقت ہوش و حواس سے فیصلے کیے، میں نے نشے یا بھنگ پی کر فیصلے نہیں کیے۔ قائد حزب اختلاف شہباز شریف کے دلائل پر جج احتساب عدالت نے سوال کیا کہ یہ جو آپ نے مجھے تفصیلات دیں، یہ نیب کو بتائیں گے۔ اس پر شہباز شریف نے کہا کہ یہ بولتے نہیں، نیب کے تفتیشی افسر گھنے بنے ہوئے ہیں۔ شہباز شریف کے ریمارکس پر کمرہ عدالت میں قہقہے گونج اٹھے۔  عدالت نے نیب وکیل سے پوچھا کہ آپ کو کس چیز کا ریمانڈ چاہیے، آپ تفتیش مکمل کر تو چکے ہیں۔ وکیل نے کہا کہ شہباز شریف سے تفتیش کرنی ہے ان کا جسمانی ریمانڈ دیا جائے، ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف نے خود کہا کہ میرے بچے مجھ پر انحصار کرتے ہیں۔ نیب کے تفتیشی افسر نے کہا کہ شہباز شریف سے رات سوالات پوچھے لیکن شہباز شریف نے جوابات دینے سے صاف انکار کر دیا۔ ان سے کل گرائونڈ آف اریسٹ پر دستخط کرائے گئے۔ شہباز شریف نے کہا کہ میں کوئی جواب نہیں دوں گا، پہلے سب کچھ بتا چکا ہوں۔ اس موقع پر شہباز شریف نے عدالت کے جج سے مکالمہ کیا کہ آپ نے جو ریمانڈ دینا ہے دیدیں۔ احتساب عدالت کے جج نے شہباز شریف سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کھڑے کھڑے تھک گئے ہوں گے۔ جس پر قائد حزب اختلاف کو بیٹھنے کیلئے کرسی دی گئی اور وہ بیٹھ گئے۔ علاوہ ازیں عدالت نے شہباز شریف کی کارگردگی رپورٹ کو ریکارڈ کا حصہ بنانے کا حکم دیا اور ہدایت کی کہ تفتیشی حکام شہباز شریف کا بیان بھی ریکارڈ کریں۔ مذکورہ کیس میں شہباز شریف کی بیٹی جویریہ علی نے عدالت میں حاضری لگائی جس کے بعد انہیں جانے کی اجازت دیدی گئی۔ نیب کی جانب سے حمزہ شہباز کی میڈیکل رپورٹ عدالت میں جمع کرائی گئی۔ دفتر خارجہ کی جانب سے سلمان شہباز اور ہارون یوسف سے متعلق رپورٹ پیش نہ کی گئی جس پر عدالت نے دفتر خارجہ کے ذمہ دار افسر کو آئندہ سماعت پر ریکارڈ سمیت پیش ہونے کا حکم دیدیا۔

ای پیپر-دی نیشن