نوازشریف کی واپسی کے لئے برطانیہ کو پھر خط لکھنے کا فیصلہ: جی 20 قرضوں میں نرمی ایک سال بڑھائے: عمران
اسلام آباد (محمد نواز رضا۔ وقائع نگار خصوصی) باخبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے وفاقی کابینہ نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کی وطن واپسی کیلئے برطانوی حکومت کو ایک بار پھر خط لکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں وزارت خارجہ اور ایف آئی اے کو ٹاسک سونپ دیا گیا ہے۔ وزیراعظم نے نواز شریف کی فوری وطن واپسی کیلئے کوششیں تیز کرنے کی ہدایت کی ہے۔ اور کہا ہے کہ نواز شریف کو وطن واپس لاکر عدالت پیش کیا جائے۔ میاں نواز شریف کو وطن واپس لانے کے لئے تمام قانونی آپشنز استعمال کئے جائیں گے۔ برطانوی حکومت کی مدد سے نواز شریف کو واپس لائیں گے۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ نواز شریف بیماری کا بہانہ بنا کر ملک سے فرار ہوئے ہیں، انہیں کسی صورت بھی این آر او نہیں دیا جائے گا۔ احتساب کا عمل بلا تفریق جاری رہے گا۔ اپوزیشن کو احساس ہو چکا ہے کہ این آر او نہیں ملے گا۔ اپوزیشن جماعتیں اپنے کیسز سے توجہ ہٹانے کیلئے اداروں کو متنازعہ بنا رہی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کااجلاس ہوا۔ جس میں ملکی سیاسی، سلامتی اور مجموعی صورت حال کا جائزہ لیا گیا اور وفاقی کابینہ نے 16نکاتی ایجنڈے کے متعدد نکات کی منظوری دے دی۔ اجلاس میں 16نکاتی ایجنڈے کے علاوہ پاکستان ڈیمو کریٹک مومومنٹ کی سرگرمیوں، مسلم لیگ (ن) کے رہنمائوں کے ریاستی اداروں کے بارے میں بیانات کا جائزہ لیا گیا۔ وزیراعظم نے کابینہ اجلاس میں سیاسی معاملات کو دیکھنے کیلئے 6 رکنی سیاسی کمیٹی بھی تشکیل دی۔ کمیٹی شہزاد اکبر، ڈاکٹر بابر اعوان، فواد چودھری، اسد عمر، شفقت محمود اور شیخ رشید پر مشتمل ہو گی۔ یہ کمیٹی اپوزیشن کی تحریک سمیت تمام سیاسی معاملات کو دیکھے گی۔ یہ کمیٹی نواز شریف کی واپسی کے حوالے سے بھی آئینی اور قانونی امور کا جائزہ لے گی۔ ذرائع کے مطابق وفاقی کابینہ نے نواز شریف کو ہر صورت وطن واپس لانے کا اصولی فیصلہ کر لیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی ہدایات کی روشنی میں نواز شریف کو وطن واپس لانے کیلئے مختلف پہلوئوں پر غور شروع کر دیا گیا ہے۔ بابر اعوان نے کہا ہے کہ نواز شریف سزا یافتہ قیدی ہیں، ان کی واپسی کے لئے مضبوط دلیل ہے۔ بیماری ہوتی تو ہسپتال جاتے، وہ تو پچھلے دروازے کی ملاقاتوں کیلئے لندن گئے ہیں ۔ نواز شریف کی واپسی کیلئے قانونی جنگ کی جائے گی۔ جلد ہی ایکسٹراڈیشن کی کارروائی شروع کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ چلی کے بھگوڑے اگسٹو پنوشے کو ایکسٹراڈیشن کے ذریعے واپس لایا گیا تھا۔ اجلاس کے دوران بعض وفاقی وزراء نے مسلم لیگی رہنمائوں کے ریاستی اداروں کو متنازعہ بنانے بارے میں بیانات کا سخت نوٹس لینے پر زور دیا۔
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کرونا وبا کے دنیا پر غیر معمولی اثرات ہوئے ہیں۔ دنیا بھر میں 10 لاکھ افراد ہلاک اور 3 کروڑ 30 لاکھ سے زائد متاثر ہوئے ہیں۔ اس کے معاشی اور سماجی اثرات تباہ کن ہیں، طبی اور معاشی ایمرجنسی سے نمٹنے کیلئے وبا پر قابو پانا ضروری ہے۔ پاکستان سمارٹ لاک ڈائون کے ذریعے وبا کا پھیلائو روکنے میں کامیاب رہا۔ قرضوں کی واپسی میں نرمی ترقی پذیر ملکوں کی مالی مدد کا تیز ترین اور مؤثر طریقہ ہے۔ امیر ممالک غریب ملکوں کیلئے 500 ارب ڈالر کا فنڈ قائم کریں۔ سالانہ 1.5 ٹریلین اکٹھے کرنے کیلئے یو این انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ فیسیلیٹی قائم کی جائے۔ انہوں نے امید ظاہر کی ہے کہ کرونا کی ویکسین جلد دستیاب ہو گی۔ دنیا کے ہر فرد کو ویکسین تک آسان رسائی حاصل ہونی چاہئے۔ انہوں نے یہ بات کرونا وبا کے تناظر میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ترقی کیلئے سرمائے کی فراہمی سے متعلق اجلاس سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہا کہ دنیا اب بھی کرونا وبا سے مکمل محفوظ نہیں ہے، اس وقت تک کوئی محفوظ نہیں جب تک سب محفوظ نہ ہوں۔ 1930ء کی اقتصادی کساد بازاری کے بعد کرونا سے سب سے بڑا معاشی بحران پیدا ہوا۔ غریب ملک کرونا بحران سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ مشکل معاشی حالات کے باوجود عوام کیلئے 8 ارب ڈالر کا ریلیف پیکیج دیا۔ میں نے اپریل میں قرضوں کی واپسی میں نرمی کا بین الاقوامی اقدام شروع کرنے پر زور دیا ہے۔ پاکستان نے اقوام متحدہ میں اس سلسلہ میں بحث شروع کرائی۔ انہوں نے کہا کہ جی 20 ممالک کی طرف سے قرضوں میں نرمی کے اقدام کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ تاہم یہ ردعمل اتنے بڑے بحران کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ انہوں نے کہا کہ جی 20 ممالک کی طرف سے قرضوں میں نرمی میں کم از کم ایک سال توسیع کی جائے، قرضوں کی واپسی میں نرمی کی توسیع سے کریڈٹ ریٹنگ متاثر نہیں ہونی چاہئے۔ عالمی مالیاتی ادارے قرضوں کی واپسی میں نرمی کے اقدام میں حصہ لیں۔ صحت، ماحول اور ایس ڈی جیز کو بھی اس پروگرام میں شامل کیا جائے۔ آئی ایم ایف کے مطابق ترقی پذیر ملکوں کو کرونا بحران سے نکلنے کیلئے 2.5 ٹریلین کی ضرورت ہے۔ امیر ملک غریبوں ملکوں کیلئے پانچ سو ارب ڈالر کا فنڈ قائم کریں۔ عالمی افلاس کا بحران نئے اور خطرناک مراحل میں داخل ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرکاری اخراجات میں اضافہ ہوا ہے جبکہ ٹیکس محصولات کم ہوئی ہیں۔ اس صورتحال میں غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری 40 فیصد اور تجارت 20 فیصد تک سکڑ گئی ہے۔ تمام وسائل بروئے کار لا کر اجتماعی فیصلے کرنے چاہئیں تاکہ اس وبا کا مؤثر خاتمہ کیا جا سکے۔ انہوں نے زور دیا کہ ہمیں آسان شرائط پر فنڈز کے ذریعے قرضہ کی سہولت پیدا کرنے کے اقدام پر غور کرنا چاہئے۔