فسطائی بھارت کے چہرے پر ایک اور بدنما داغ، ایڈوانی، جوشی اوما سمیت بابری مسجد شہید کرنیوالے تمام 32 دہشتگرد بری
لکھنئو+نئی دہلی+اسلام آباد (آن لائن +نوائے وقت رپورٹ+خبر نگار خصوصی) ہندوتوا کی پرچارک نام نہاد سیکولر بھارت میں بابری مسجد شہادت کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا۔ سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے ایڈوانی‘ جوشی‘ اوما سمیت تمام ملزموں کو بری کر دیا۔ سیکولر بھارت کے چہرے پر ایک اور بد نما داغ، بھارت میں بسنے والی اقلیتیں "کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں کی تصویر بن کر رہ گئے"۔ تاریخی بابری مسجد منہدم نہیں ہوئی، شہید کی گئی۔ دنیا بھر کے میڈیا نے مسجد کی شہادت کی کوریج کی لیکن ہندوتوا کی پرچارک اور انتہا پسند مودی حکومت کے ساتھ ساتھ بھارتی انصاف کے ایوانوں میں بیٹھے منصفوں کے چہرے پر بابری مسجد کی شہادت کے ذمہ دار ملزمان کی بریت ایک بد نما داغ بن گئی۔ بابری مسجد کی شہادت کا فیصلہ سی بی آئی کے جج سریندر کمار یادو نے عدالت میں سنایا۔ جج سریندر کمار یادو نے فیصلے میں لکھا ہے کہ 28 برس قبل بابری مسجد کا انہدام کسی باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت نہیں کیا گیا۔ اس لیے تمام ملزمان کو بری کیا جاتا ہے۔ بابری مسجد کے انہدام کی پہلے سے منصوبہ بندی کے ثبوت نہیں ملے۔ نامزد ملزمان کے ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد نہیں ملے ہیں۔ تاریخی بابری مسجد کے دو مقدمے عدالت میں زیر سماعت تھے۔ ایک مقدمہ زمین کی ملکیت کا تھا جس کا فیصلہ گذشتہ برس ہوا۔ زمین کی ملکیت کا فیصلہ ہندو فریق کے حق میں آیا تھا اور دوسرا مسجد کی شہادت کے متعلق تھا۔ 6 دسمبر 1992 کو ایک بڑے ہجوم نے بابری مسجد کو شہید کر دیا تھا۔ یہ مسجد پانچ سو برس قبل مغل بادشاہ ظہیرالدین بابر کے دور میں تعمیر کی گئی تھی۔ بابری مسجد کی شہادت میں لال کرشن ایڈوانی، مرلی منوہر جوشی، کلیان سنگھ اور اوما بھارتی سمیت 32 ملزمان کو بری قرار دیا گیا ہے۔ امریکی خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس اے پی کی رپورٹ کے مطابق ان تمام افراد پر 1992 میں 16ویں صدی عیسویں کی بابری مسجد کو شہید کرنے اور ہندو مسلم فسادات کو بھڑکانے کے الزامات تھے جس کے نتیجے میں 3 ہزار افراد مارے گئے تھے۔ بھارتی نشریاتی ادارے این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق مذکورہ مقدمہ بھارتی عدالت میں 28 سال تک چلا اور اس کیس کا فیصلہ سنانے کے لیے جج کے عہدے کی مدت میں توسیع بھی کی گئی جنہوں نے کہا کہ 'مسجد کو سماج مخالف عناصر نے منہدم کیا تھا اور جن رہنماؤں پر الزام عائد کیا گیا ہے انہوں نے لوگوں کو روکنے کی کوشش کی'۔ جج کا یہ بھی کہنا تھاکہ سی بی آئی کی جانب سے عدالت میں پیش کردہ آڈیو اور ویڈیو شواہد کوئی سازش ثابت نہیں کرسکے جبکہ تقاریر کی آڈیو واضح نہیں تھی۔ تفتیشی اداروں کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ایل کے ایڈوانی، اوما بھارتی، اور کلیان سنگھ سمیت 32 ملزمان اس سٹیج کے قریب موجود تھے جہاں سیاسی، مذہبی اور مندر کے لیے مہم چلانے والوں نے تقاریر کیں اور ان تقاریر کی وجہ سے ہجوم مشتعل ہوا۔ این ڈی ٹی وی نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ ایک پروگرام میں ایل کے ایڈوانی نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ بابری مسجد کی شہادت ایک 'خوفناک غلطی تھی لیکن مجھے آج تک معلوم نہیں کہ ہجوم کے مشتعل ہونے کے نتیجے میں ہوا یا کسی گروہ کی جانب سے جان بوجھ کر کیا گیا'۔ دریں اثنا پاکستان نے بابری مسجد فیصلے پر سخت ردعمل دیتے ہوئے اسے شرمناک قرار دے دیا ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان بابری مسجد شہید کرنے والے مجرموں کی رہائی کی مذمت کرتا ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ تین دہائیوں بعد اس مجرمانہ اقدام کا فیصلہ کیا گیا۔ فیصلہ دنیا کو بتاتا ہے کہ ہندوتوا سے متاثر بھارتی عدلیہ انصاف کرنے میں ناکام ہو گئی۔ زاہد حفیظ چودھری کا کہنا تھا کہ بابری مسجد کی شہادت کے بعد ہزاروں لوگوں کو پرتشدد واقعات میں مارا گیا۔ نام نہاد جمہوریت میں اگر انصاف ہوتا تو سرعام جرم کرنے والے آزاد نہ ہوتے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے قبل بھی بھارتی سپریم کورٹ نے جانبدارانہ فیصلہ سنایا تھا۔ بھارتی حکومت اقلیتوں اور ان کی عبادت گاہوں کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کی عبادت گاہوں پر کرونا کے دنوں میں بھی حملے ہوتے رہے۔ عالمی برادری بھارت میں اسلامی ثقافتی ورثوں کے تحفظ کے لئے اپنا کردار ادا کرے۔اِس مقدمے میں نامزد تمام 32 ملزموں کو عدالت میں حاضر رہنے کا حکم دیا گیا تھا لیکن کرونا کی وبا کے سبب بیشتر ملزم، جن کی عمریں زیادہ ہیں، ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت کا فیصلہ سنا۔ احاطہ عدالت کے باہر موجود جنونی ہندوئوں نے ایک دوسرے کو گلے لگایا اور جئے شری رام کے نعرے لگائے۔ ملزم جے بھگوان گویل نے ٹی وی چینلز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے مسجد توڑی تھی، اگر عدالت سے سزا ملتی تو ہم خوشی سے اس سزا کو قبول کر لیتے۔ عدالت نے سزا نہیں دی۔ یہ ہندو مذہب کی فتح ہے، ہندو قوم کی فتح ہے۔ دوسری جانب بابری مسجد اراضی مقدمے میں ایک فریق ہاشم انصاری کے بیٹے اقبال انصاری نے کہا ہم قانون کی پاسداری کرنے والے مسلمان ہیں۔ اچھا ہے اگر عدالت نے بری کر دیا ہے تو ٹھیک ہے۔ کیس بہت طویل عرصے سے التوا میں تھا اب ختم ہوگیا ہے۔ اچھا ہوا۔ ہم چاہتے تھے کہ اس کا جلد فیصلہ ہوجائے۔ ہم عدالت کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ انڈیا کے مرکزی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے اپنے ایک ٹویٹ میں فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے اور لکھا ’دیر سے ہی سہی انصاف کی جیت ہوئی۔ انھوں نے مزید لکھا کہ ’بابری مسجد شہادت کیس میں لکھنؤ کی خصوصی عدالت کے ذریعہ مسٹر ایل کے ایڈوانی، مسٹر کلیان سنگھ، ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی، اما جی سمیت 32 افراد کے کسی بھی سازش میں شامل نہ ہونے کے فیصلے کا خیرمقدم کرتا ہوں۔ماہرین کے مطابق بابری مسجد کو گرائے جانے کی ویڈیو انٹرنیٹ پر موجود ہیں جس میں اوما بھارتی اور مرلی منوہر جوشی مسجد کی شہادت پر خوشی کا اظہار کرتے مسلمانوں کیخلاف زہر اگلتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ سماعت کے دوران سی بی آئی نے ملزمان کیخلاف 351 گواہان اور 600 کے قریب دستاویزات پیش کئے۔ سی بی آئی 400 صفحات پر مشتمل تحریری مباحثہ داخل کر اچکی تھی، مگر ا س کے باوجود تمام تر ثبوتوں کے باوجود ان مجرموں کو رہا کر دیا گیا۔ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمون کے سربراہ اسد الدین اویسی نے کہا کہ ’’یہ بھارتی تاریخ کا ایک کالا دن ہے۔ ہر کوئی آج دلی درد اور تکلیف کو محسوس کر رہا ہے، یہ فیصلہ بھارت کے سیکولرازم کی حقیقی تصویر پیش کرتا ہے‘‘۔ اس فیصلے کی خوشی میں پورے بھارت میں ہندوئوں کی جانب سے جشن منائے جا رہے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ بابری مسجد والا حال بھارت کی دیگر تمام مساجد اور مسلمانوں کا کیا جائے گا۔