غداری نہیں غیر ذمہ داری، خود پسندی اور لالچ!!!!
گذشتہ کئی روز سے ملکی سیاست میاں نواز شریف کے بیانات کے گرد گھوم رہی ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں، میڈیا ہاؤسز، سوشل میڈیا میاں نواز شریف کے بیانات سے بھرا پڑا ہے۔ کوئی انہیں غلط کہہ رہا ہے کوئی ان کے موقف کی حمایت کر رہا ہے کوئی خاموش ہے لیکن یہ ملک بھر میں اس حوالے سے بے چینی ضرور پائی جاتی ہے۔ ٹی وی چینلز پر ہر وقت ایک ہی موضوع ہے۔ میاں نواز شریف کی تقریر، میاں نواز شریف کا آئندہ لائحہ عمل، میاں نوازشریف کا مستقبل یا پھر خواتین سے زیادتی کی خبروں کو جگہ مل رہی ہے۔ اس صورت حال میں جب میڈیا کی ساری توجہ، پروگرامز کا زیادہ وقت صرف سیاسی موضوعات پر خرچ یا ضائع ہو رہا ہے تو سب سے زیادہ متاثر عام آدمی ہو رہا ہے کیونکہ سب سے زیادہ متاثر درمیانے درجے کا پاکستانی ہو رہا ہے۔ جو بہت امیر ہیں انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا ملک میں جو مرضی ہوتا رہے کیونکہ ان کے پاس وسائل کی کمی نہیں ہے اور جو بہت غریب ہیں انہیں بھی شاید کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ وہ سخت زندگی، وسائل سے محرومی اور تمام آسائشوں سے محروم ہیں۔ ملک کی بڑی آبادی اور بڑا طبقہ جو کہ درمیانہ طبقہ ہے اس کا خون چوسا جا رہا ہے کیونکہ سب سے زیادہ زندگی اس کے لیے مشکل ہوئی ہے۔ بچوں کی فیسیں، تعلیمی اخراجات، کم وسائل کی وجہ سے مزید یا اعلیٰ تعلیم کے راستے میں مالی رکاوٹیں، اچھی خوراک پر ہوتا سمجھوتا، لباس پر سمجھوتا، گھومنے پھرنے پر سمجھوتا، بچوں کی خواہشات پر سمجھوتا، ادویات پر سمجھوتا غرض یہ کہ طرز زندگی پر سمجھوتا کرنا پڑ رہا ہے۔ ان کروڑوں افراد کے دکھوں کا مداوا کون کرے گا، ان کروڑوں افراد کے حقیقی مسائل کون حل کرے گا۔
میاں نواز شریف تقریر کرتے ہیں چلے جاتے ہیں پھر آتے ہیں بولتے ہیں چلے جاتے ہیں ان کے سیاسی مریدین کی طرف سے ہر تقریر کے بیانات کا طوفان آتا ہے۔ حکومتی وزراء گھنٹوں اس تقریر کا جواب دیتے ہیں۔ یقیناً اس جواب کی تیاری پر بھی گھنٹوں بات ہوتی ہے۔ پھر ان جوابی بیانات پر گھنٹوں بات چیت ہوتی ہو گی۔ ان حالات میں عوامی مسائل تو کہیں بہت دور رہ جاتے ہیں۔ جس کام کے لیے عوام نے پاکستان تحریکِ انصاف کو ووٹ دیا تھا وہ کام تو ہو نہیں رہے۔ پی ٹی آئی کے اکابرین کو مل بیٹھ کر حالات کا جائزہ لیتے ہوئے اپوزیشن کے بیانات کا جواب دینے کے لیے مخصوص افراد کی ایک ٹیم تیار کرنی چاہیے۔ ویسے تو صرف وزیر اطلاعات کو ہی یہ کام کرنا چاہیے لیکن پھر بھی ایک سے زیادہ افراد کی ضرورت ہے تو مخصوص افراد کو میاں نواز شریف یا سیاسی مخالفین کی سیاسی بیان بازی کا جواب دینا چاہیے باقی تمام وزراء کو اپنی وزارتوں تک محدود ہو جانا چاہیے کیونکہ تمام وزراء ن لیگ یا نواز شریف کو جواب دینے میں مصروف رہیں گے تو عوامی مسائل حل نہیں ہو سکیں گے۔ مسائل بڑھیں گے تو حکومت پر بھی دباؤ بڑھتا رہے گا اور بڑھتے ہوئے عوامی مسائل کے ساتھ اپوزیشن کے حملوں کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں رہے گا۔ دراصل بات صرف اپوزیشن کی نہیں ہے بات عوام کی ہے اگر عوام کی زندگی آسان نہیں ہوتی تو ہم اندرونی دشمنوں کے ساتھ ساتھ بیرونی دشمنوں سے لڑائی بھی حقیقی جذبے کے ساتھ نہیں کر سکیں گے۔ اس سلسلے میں وزیراعظم عمران خان کو فوراً فیصلہ کرنا ہو گا تاکہ اپوزیشن کا مقابلہ کرتے ہوئے کسی بھی صورت عوام کے مسائل نظر انداز نہ ہوں۔
اس کی ایک مثال وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید کی ہے گذشتہ روز انہوں نے لاہور میں میڈیا سے گفتگو کی ہے۔ آپ اخبار پڑھ رہے ہوں گے کل سے ٹیلیو یژن چینلز پر بھی ان کی گفتگو سن رہے ہوں گے ایک لمبی پریس کانفرنس میں شاید ہی پاکستان ریلویز کے حوالے سے گفتگو کی گئی ہو اگر آپ نے سنی ہو تو ہمیں ضرور
بھیجیں۔ کیا پاکستان ریلویز کے سب مسائل حل ہو چکے ہیں، کیا پاکستان ریلویز ترقی کی طرف گامزن ہے، کیا ٹرین پر سفر کرنے والوں کے تمام مسائل حل ہو چکے ہیں اگر ایسا نہیں ہے تو وزیر ریلوے کو اپنے محکمے کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ نواز شریف، ن لیگ، پیپلز پارٹی یا مولانا فضل الرحمٰن کو جواب دینے کے لیے وفاقی وزیر اطلاعات سینیٹر شبلی فراز یا پھر صوبائی وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان بہترین انتخاب ہیں۔ گھنٹوں بولتے رہیں گے اور اپوزیشن کو تفصیل سے ان کے سوالات کا جواب دینے کے ساتھ ساتھ اپنے سوالات بھی ان کے سامنے رکھیں گے۔ یہی صورتحال دیگر وزرائ کے بھی یہی حالات ہیں۔ اس صورتحال میں اپوزیشن کا مقابلہ کرنے اور عوامی مسائل حل کرنے میں توازن رکھنے کے لیے نئی حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔ اقتدار کا حصہ رہنے والے مافیا کا مقابلہ کرنے کے لیے عام آدمی کی زندگی پر توجہ دینا ہو گی۔
میاں نواز شریف کی مسلسل ملکی اداروں پر تنقید اور اہم قومی رازوں کو دنیا کے سامنے کھولنے کے بعد ایک حلقہ مسلسل ان پر غداری کا مقدمہ چلانے کی حمایت کر رہا ہے۔ لوگوں کی اس حوالے سے خاصی سخت رائے بھی ہے لیکن حکومت کو اس بحث کی نفی کرنی چاہیے۔ یہ ایک الگ بحث اور گفتگو ہے کہ میاں نواز شریف ایسا کیوں کر رہے ہیں لیکن ان کے بیانات کو بنیاد بنا کر غداری کے مقدمے کے موقف کی حمایت نہیں کی جا سکتی وہ ذاتی رائے رکھتے ہیں جس کا وہ اظہار کرتے چلے آ رہے ہیں۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ کیا انہیں ایسی گفتگو کرنی چاہیے تھی، کیا انہیں بیرون ملک بیٹھ کر ملکی سلامتی کے اداروں، عدالتوں اور دیگر اداروں کو متنازع بنانے کا موقف اپنانا چاہیے تھا یا نہیں، کیا اس طرز عمل کے بعد وہ قابل اعتبار رہے ہیں، کیا اب ان پر دوبارہ اعتماد کیا جا سکتا ہے، کیا ان کے سامنے یا ان کے خاندان کے دیگر افراد کے سامنے ملکی سلامتی بارے اہم معاملات پر گفتگو کی جا سکتی ہے، کیا انہیں یا ان کے خاندان کو دوبارہ اہم معاملات میں شامل کیا جا سکتا ہے، کیا میاں نواز شریف نے تین مرتبہ بحثیت وزیراعظم جو حلف اٹھایا
تھا کیا وہ اس کی پاسداری کر رہے ہیں، کیا اپنے بیانات سے وہ ملک دشمنی کے مرتکب تو نہیں ہو رہے، کیا ان کی تمام باتوں کا جواب دینا چاہیے؟؟
میاں نواز شریف کے حالیہ بیانات کو غداری تو نہیں لیکن انتہائی غیر ذمہ داری ضرور کہا جا سکتا ہے۔ انہوں نے ملک کے سابق وزیراعظم کی حیثیت سے انتہائی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ تمام باتیں کر دی ہیں جو حلف انہیں بیان کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ میاں نواز شریف کے بعد مسلم لیگ کے دیگر رہنماؤں نے بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار کرنا شروع کیا بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ میاں نواز شریف کی پالیسی سے اختلاف رکھنے والوں کی پارٹی رکنیت بھی معطل کر دی گئی۔ یہی وہ اقدامات ہیں جن کی بنیاد پر میاں نواز شریف پر غداری کے مقدمے کا ماحول بن رہا ہے ایسا ہونا نہیں چاہیے لیکن یہ حقیقت ہے کہ ان کے دل کو سخت تکلیف پہنچی ہے چونکہ وہ اقتدار سے الگ ہوئے ہیں، کرپشن کے الزامات ہیں، مقدمات عدالتوں میں ہیں، سزا مل چکی ہے، مزید مقدمات میں سزا ہو سکتی ہے۔ سارا خاندان عدالتوں میں ہے۔ ایک طرف اقتدار ہاتھ سے جاتا رہا دوسری طرف شاہانہ طرز زندگی کی جگہ ایسی زندگی نظر آتی ہے جہاں نہ تو پلیٹ لیٹس قابو میں رہتے ہیں نہ بلڈ پریشر قابو میں آتا ہے اور کئی ایسی بیماریاں بھی حملہ کرتی ہیں جنہیں ڈھونڈتے ڈھونڈتے حال ہو جاتا ہے۔ ان حالات میں میاں نوازواز شریف کی طرف سے ایسے بیانات صرف اور صرف ذہنی تناؤ کی وجہ سے ہیں۔ انہیں یقین ہی نہیں آ رہا کہ وہ ملک کے وزیراعظم نہیں رہے اور ان کے بھائی وزیر اعلیٰ نہیں رہے۔ پھر چوری پکڑے جانے پر ملک کا بچہ بچہ چور چور کے طعنے بھی دیتا ہے۔ سب کچھ چھن جانے کے باوجود بھی اقتدار کی ہوس کم نہیں ہوئی۔ اس ہوس کی وجہ سے انہوں نے حلف کی پاسداری کے بجائے ملکی اداروں پر تنقید کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ جیسے ان پر غداری کے مقدمے کی حمایت نہیں کی جا سکتی بالکل اسی طرح میاں نواز شریف کے حالیہ بیانات کی حمایت کرنا بھی ممکن نہیں ہے۔ اس کی ہر سطح پر مذمت کی ضرورت ہے۔ رانا ثنائاللہ کہتے ہیں کہ کسی ادارے سے کوئی لڑائی نہیں ہے لیکن حکومت کے سامنے نہیں جھکیں گے۔ رانا ثناء اللہ کی اگر لڑائی اداروں سے نہیں ہے تو اداروں کو نشانہ کیوں بنایا جا رہا ہے۔ ان سے کون کہہ رہا ہے کہ حکومت کے سامنے جھک جائیں وہ حکومت ہر تنقید کریں، حکومت کی پالیسیوں کو ہدف بنائیں، حکومت کی خراب کارکردگی پر عوام سے رجوع کریں، عوامی مسائل پر سیاست کریں انہیں کس نے روکا ہے۔ لیکن رانا ثناء اللہ کے قائد کی سیاست کا محور تو ریاستی ادارے ہیں اور وہ خود ان کی تقریر کو حرف حرف درست قرار دیتے ہیں تو تصادم کا راستہ یا ریاستی اداروں کو سیاسی میدان میں حریف بنانے کا عمل تو وہ خود شروع کر چکے ہیں۔ میاں نواز شریف اور ان کے سیاسی ہم خیالوں کو اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ ملک کے تین مرتبہ اور ہر مرتبہ مدت ہوری کیے بغیر عہدے سے الگ ہونے والے شخص کو ایسی باتیں زیب نہیں دیتیں۔
مولانا فضل الرحمان کو پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کا سربراہ بنانے کا فیصلہ ہوا ہے۔ اجلاس میں نواز شریف، آصف زرداری، بلاول بھٹو سمیت اپوزیشن کے دیگر رہنماؤں نے شرکت کی۔
پی ڈی ایم کے دیگر عہدیداروں کا فیصلہ کل اسٹیئرنگ کمیٹی کے اجلاس میں متوقع ہے۔ واقفان حال بتاتے ہیں کہ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کی سربراہی کے لیے مولانا فضل الرحمٰن کا نام میاں نواز شریف نے تجویز کیا تھا۔ میاں نواز شریف کی اس تجویز کی پیپلز پارٹی کی طرف سے مخالفت کی گئی اور بلاول بھٹو نے موقف اختیار کیا کہ سربراہی کی مدت بھی طے کی جائے اور اتحاد کی سربراہی باری باری تمام جماعتوں کو دینی چاہیے۔
پی ڈی ایم کی سربراہی مولانا فضل الرحمٰن کو ملنا نیک شگون نہیں ہے ویسے تو اپوزیشن جماعتیں متحد نہیں ہیں لیکن مزاحمت اور تشدد کی سیاست کی صورت میں مولانا فضل الرحمٰن کا سربراہ رہنا نہایت خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ ہم نے بہت پہلے انہی صفحات پر لکھا تھا کہ مولانا اپوزیشن اتحاد کی قیادت کریں گے۔ اپوزیشن اسی طرف جا رہی ہے اس اتحاد کا سب سے خطرناک پہلو مولانا کا متشدد اور جارحانہ رویہ ہے۔ وہ بھی اقتدار سے الگ ہونے کے بعد زخموں سے چور ہیں اور کسی صورت جمہوریت کے حسن حزب اختلاف کو ماننے یا حزب اختلاف کا کردار نبھانے کے لیے رضامند نہیں ہیں۔ وہ بھی میاں نواز شریف کی طرح صرف اسی جمہوریت کو مانتے ہیں جس میں وہ اقتدار میں ہوں۔ ہٹو بچو کے سائرن ہوں اور سرکاری مزے ہوں۔ اللہ پاکستان کو اپوزیشن کی اس متشدد، جارحانہ سیاست اور لالچ کے عذاب سے محفوظ فرمائے۔