• news

صدر،گورنر عہدہ چھوڑنے کے فوری بعد الیکشن لڑسکیں گے سیکرٹریٹ نے بل صوبوں کو بھجوادیا

لاہور(معین اظہر سے) صدر مملکت اور گورنرز کو آئین میں ترمیم کرکے سروس آف پاکستان سے نکالنے کا بل سینٹ سیکرٹریٹ نے چاروں صوبوں کو بجھواء دیا ہے۔ اس بارے میں رائے لی جارہی ہے۔ آئین کے ارٹیکل 260 کے تحت صدر اور گورنر رہنے والے افراد سروس آف پاکستان کی کیٹگری میں آتے ہیں اور وہ اس عہدے سے ہٹنے کے بعد دو سال تک قومی اسمبلی کا الیکشن نہیں لڑ سکتے ہیں یا کوئی حکومتی عہدہ لے سکتے ہیں۔ اگر اس میں ترمیم پاس کر لی گئی تو صدر اور گورنرز پر یہ پابندی ختم ہو جائے گی۔ وہ عہدے کی معیاد ختم ہونے یا عہدے سے فارغ ہونے کے بعد فوری طور پر الیکشن میں حصہ لے سکیں گے۔ تفصیلات کے مطابق سینٹ سیکرٹریٹ کی جانب سے چاروں صوبائی حکومتوں کو آئین کے آرٹیکل 260 میں ترمیم کرنے کا مسعودہ قانون بجھوایا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ صوبے اس بارے میں اپنی رائے دیں۔ 1973 کے آئین کے مطابق سپیکر، ڈپٹی سپیکر، چیرمین سینٹ و ڈپٹی چیرمین سینٹ، وزیر اعظم، وفاقی وزراء، سٹیٹ منسٹر، چیف منسٹر، صوبائی وزراء، ممبران قومی اسمبلی و سینٹ اور صوبائی  ارکان اسمبلی کو سروس آف پاکستان میں شامل نہیں ہوتے ہیں۔ سینٹ کے مسودہ قانون میں کہا گیا ہے کہ بعد ازاں 1973 کے آئین کے بعد 1974 اور 1976 میں آئین میں ترمیم کر کے مزید بعض سروسز کو لازمی سروس کے قانون سے نکالا گیا تھا۔ اپنے مسعود ہ قانون میں کہا گیا ہے کہ صدر اور گورنر پنجاب اپنے عہدے سے فارغ ہونے کے بعد دو سال تک ممبر قومی اسمبلی و صوبائی اسمبلی نہیں بن سکتے ہیں۔ جس کی وجہ سیاسی ورکرز جن کے پاس سیاسی تجربہ ہوتا ہے جن کے پاس عقل دانش ہوتی ہے۔ وہ ان عہدوں میں اس وجہ سے لگنا نہیں چاہتے ہیں جس کی وجہ سے صدر اور گورنر کے عہدے کے لئے اہل اور اچھے افراد کا چنائو مشکل ہو جاتا ہے۔ اسلئے اب کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 260 کی کلاز ون میں ترمیم کرکے اب صدر اور گورنر عہدوں کو سروس آف پاکستان سے نکالا جائے تاکہ وہ الیکشن میں یا دیگر سرکاری عہدے کے لئے اہل ہو سکیں۔ اس قانون کے پاس ہونے کی صورت میں صدر اور گورنر کے اوپر سے دو سال کی شرط ختم کر دی جائے گی۔ تاہم اس بارے میں جب محکمہ قانون پنجاب سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ہاں ان کے پاس مسودہ قانون موصول ہو ا ہے تاہم وہ فیصلہ نہیں کر سکتے ہیں۔ کیونکہ یہ سیاسی فیصلہ ہے جو حکومت نے کرنا ہے اس پر کیا جواب دینا ہے۔ تاہم محکمہ قانون کے اعلی افسران کے رائے کے مطابق ایک اعزاز کی بات ہوتی ہے کہ صدر اور گورنرکا عہدہ چاہے اختیارات کے بغیر ہو ایک عزت کی بات ہوتی ہے اگر کوئی شخص صدر یا گورنر ہے وہ فوری طور پر الیکشن لڑے گا تو اس سے ان عہدوں کے بے توقیری ہونی کا خدشہ ہے۔ اسلئے آئین جس وقت بنایا گیا تھا اس کے لئے ایسے عہدوں پر تعینات رہنے والے افراد کی عزت اور توقیر کو مدنظر رکھا گیا تھا۔ عہدوں پر رہنے والے افراد اہم نہیں ہوتے ہیں عہدے اہم ہوتے ہیں اسلئے قانون میں ترمیم نہیں کرنی چاہیے تاہم بعض سیاسی افراد کا دبائو ہے اس وجہ سے شاید ترمیم ہو جائے گی۔ واضح رہے کہ سینٹ میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی عددی برتری حاصل ہے۔ ایسے میں وہ کس حکومتی شخصیت کو خوش کرنے کے لئے اس ترمیم کی حمایت کررہے ہیں تو اس کی کیا وجہ ہے اس بارے میں سینٹ اور محکمہ قانون میں کسی نے بات کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ 

ای پیپر-دی نیشن