غداروں کی کہانی…بہت پرانی…!
حال ہی میں میاں نواز شریف کی نشریاتی تقریر نے ملک کے ہر حلقے میں ہلچل مچا دی اور عوام حیران اور حکومت پریشان ہو گئی اس کے صلے میں اُن کو غدار کا قرار دے دیا گیا۔ پاکستان میں دو چیزیں بڑی ارزاں ہیں اور بغیر روک ٹوک جس کا جی چاہتا ہے اُسے استعمال کرتا ہے۔ وہ ہے کافر، دائرہ اسلام سے خارج اور غدارِوطن۔ ویسے تو یہ روایت ہندوستان میں انگریزی دور میں شروع ہوئی جنہوں نے اپنے مخالفوں کو غدار قرار دے کر سزائے موت اور جزائر انڈیمان بھیج دیا اور ہندوستان میں بھی اس روایت کو ختم نہ ہونے دیا گیا۔ جیسا کہ سبھاش چندر بوس نے کانگرس میں گاندھی کے امیدوار کو ہرایا تو گاندھی نے مرن بھرت رکھ لیا کہ اب کانگرس کا صدر ہٹلر کا حامی ہو گیا ہے کہ اب انڈیا وائلنٹ ہو گیا۔ حال ہی میں وفات پانے والے سابق وزیر خارجہ جسونت سنگھ نے جب اپنی کتاب میں حضرت قائداعظم کو ہدیہ تبریک پیش کیا تو اُنہیں بھی اسی لقب کا حقدار جانا گیا۔ لیکن ہندوستان نے اس کو ہماری طرح عام استعمال کی چیز نہیں بنایا۔
لیکن ہمارے ملک میں غدار قرار دئیے جانے والے شخص کو جب دل چاہا صابن سے نہلا دُھلا کر محب وطن بنا دیا گیا۔ جیسا کہ مولانا فضل الحق غدار قرار پائے بعد میں مرکزی وزیر بنا دئیے گئے حالانکہ انہوں نے اپنی تمام تر زندگی اور توجہ لاکھوں مسلمان بچوں کو تعلیم دلوانے میں خرچ کی۔ سہروردی جیسے محب وطن عوام دوست لیڈر کو بھی غدار قرار دیا گیا۔ باچا خان، عبدالصمد خان، اچکزئی، غوث بخش بزنجو، سردار مینگل اور میاں افتخارالدین بھی غدار ٹھہرے۔ پھر جنرل اکبر خان کا راولپنڈی سازش کیس اور حیدر آباد سازش کیس میں غداروں کا ٹرائل جس میں بھٹو حکومت نے ججوں کو غصہ دلانے کے لئے لوگوں کو پنجرے میں بند کرکے ججوں کے سامنے پیش کیا تو ججوں کے سوال پر کہ ایسا کیوں کیا ہے تو انہیں ڈرانے، دھمکانے، خوف میں مبتلا کرنے اور غصہ دلانے کے لئے بتایا کہ یہ خطرناک لوگ ہیں۔ یہ آپ پر حملہ آور ہو سکتے ہیں۔ اگرتلہ سازش کیس میں مجیب الرحمان مغربی پاکستان کے حکمرانوں کی نظر میں غدار بنا جبکہ اپنے عوام کا ہیرو جو اس کو پوجنے کی حد تک چاہتے تھے اور جب ڈھاکہ ٹربیونل میں اگرتلہ کیس کا ٹرائل ہو رہا تھا تو عوام نے ٹربیونل پر حملہ کر دیا اور جج صاحب بڑی مشکل سے جان بچا کر بھاگے۔
جب باچا خان نے یہ وصیت کی کہ اُسے افغانستان میں دفن کیا جائے تو غداری کا ٹھپہ اُن پر پکا لگا دیا گیا۔ لیکن جنرل موسیٰ نے بھی یہ خواہش کی تھی کہ اُسے ایران میں دفن کیا جائے تو اُن پر کوئی آنچ نہ آئی۔ جی ایم سید نے سندھ اسمبلی میں قرارداد پاکستان پیش کی اور جب انہوں نے سندھ کے حقوق کی بات کی تو اُن کو بھی غدار کہا گیا۔ عبدالولی خان اور اُن کی پارٹی کو بھی غدار کہا گیا۔ اکبر بگٹی جو قائداعظم کے ساتھ رہے، گورنر اور وزیراعلیٰ بلوچستان رہے وہ بھی غدار ٹھہرے۔ مولانا مودودی جیسا مدبر اور مفکر اسلام شخص بھی اُس تہمت سے نہ بچ سکا اور تو اور شاعروں کو بھی غداری کا اعزاز دے دیا گیا۔ اصغر خان کے متعلق گندا سکینڈل بنایا گیا۔محترمہ فاطمہ جناح نے ایوب خان کے خلاف الیکشن لڑا تو وہ بھی غیرملکی ایجنٹ اور غدار ٹھہریں۔بھٹو ناکردہ گناہوں کے صلے میں سزائے موت کو پہنچے۔ ہم الطاف حسین اور مجیب الرحمان کی بات نہیں کرتے۔ لیکن ملک کا تین دفعہ وزیراعظم بننے والے کو غدار کا ٹھپہ لگانے سے جگ ہنسائی کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔وقت کا تقاضا ہے کہ کوئی ایسا قانون لایا جائے جس میں پاکستان، قائداعظم اور دفاعی اداروں کی تضحیک کرنے والوں کو گناہ کا مرتکب ٹھہرایا جائے۔ آجکل کھوکھر پیلس کی کسی میٹنگ کا بڑا تذکرہ چل رہا ہے۔ جب چیلنج کیا گیا تو جواب آیا کہ لاہور میں کئی کھوکھر پیلس ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ پاکستان کی سیاست میں تحمل، برداشت، بردباری، دانش مندی اور دور اندیشی مکمل طور پر ناپید ہو چکی ہے۔ حکومت کی ترجمانی کرنے والے کوئی عام آدمی نہیں ہوتے۔ لوگ ان کا ایک ایک لفظ نوٹ کرتے ہیں۔ صحافیوں سے رشتے مانگنا کون سی اخلاقیات ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ملک کے نامور دانشور اور ممتاز شخصیات جو مجید نظامی جیسا قد کاٹھ رکھتے ہوں اور اپنے اپنے فیلڈ کے ماہر ہوں جن میں صحافی، علمائ، مشائخ، ریٹائرڈ وائس چانسلرز، ریٹائرڈ جرنلز، ریٹائرڈ ججز، بیوروکریٹس اور کامیاب کاروباری ہستیاں سرجوڑ کر بیٹھیں اور جذبہ حب الوطنی کے تحت سامنے آئیں۔ آپس میں مل بیٹھیں شرط یہ ہے کہ اُن کے خیالات کسی سیاسی پارٹی کی ہمدردی یا مخالفت سے بالا ہوں۔ وہ ملک کو درپیش مسائل کا حل ڈھونڈ کر صرف دو شخصیات کو پیش کریں آرمی چیف اور چیف جسٹس آف پاکستان۔ کیونکہ صرف یہ دو ہستیاں ہی بااختیار ہیں جن کی بات لوگ سنیں گے اور مانیں گے بھی۔ یہی ان پر عملدرآمد کروا سکتے ہیں۔تو جناب یہ وقت گھروں میں بیٹھے رہنے کا نہیں بلکہ اپنی ذمہ داری کا احساس کریں۔ اس قوم نے آپ کو بہت کچھ دیا ہے۔ اب آپ قوم کی راہنمائی کریں۔