لیگی ارکان نے وزیراعلیٰ سے ملاقات کرنیوالے مولانا غیاث الدین کو ایوان سے نکال دیا
لاہور (خصوصی نامہ نگار‘ نوائے وقت رپورٹ) پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں مسلم لیگ (ن) کے ارکان نے وزیراعلیٰ عثمان بزدار سے ملاقات کرنیوالے رکن مولانا غیاث الدین کو ایوان سے باہر نکال دیا۔ جبکہ رکن اسمبلی فیصل خان نیازی سے استعفیٰ لے لیا۔ عظمیٰ بخاری نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ فیصل نیازی نے اپوزیشن لیڈر کے چیمبر میں بیٹھ کر استعفیٰ لکھا۔ ذرائع کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے چیف وہپ خلیل طاہر سندھو نے مولانا غیاث الدین کو ایوان میں بیٹھنے سے منع کیا۔ اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا، وزیراعلی سے ملاقات کرنا میرا حق ہے، کسی کی اجازت طلب کرنا ضروری نہیں سمجھتا۔ میاں رؤف اور جلیل احمد شرقپوری میں تلخ کلامی ہوئی۔ میاں رؤف نے کہا ہم نے آپ کا الیکشن لڑا‘ آپ لوٹے بن گئے۔ جلیل شرقپوری نے کہا کہ استعفیٰ مرضی سے دونگا۔ آپ کے کہنے پر نہیں۔ (ن) لیگ خود چل کر آئی‘ ہمارے ٹکٹ پر الیکشن لڑیں۔ اجلاس میں ن لیگ کے ارکان نے شہباز شریف کی گرفتاری پر احتجاجاً سیاہ پٹیاں باندھ کر شریک ہوئے۔ مسلم لیگ ن کے رکن اویس لغاری اور پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر سید حسن مرتضی نے حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ اویس لغاری نے کہا کہ 1018 کے الیکشن کے بعد ہم جمہوریت کی خاطر اسمبلیوں کا حصہ بنے ہم نے حکومت کو معیشت، امن و امان اور قومی ایشوز پر ساتھ دینے کی آفر دی مگر حکومت نے اس کو ٹھکرا دیا۔ ہم کہتے ہیں کہ عوام کو ریلف دیں مہنگائی کو کم کریں۔ سی پیک کو تیز کریں۔ یہ الٹا کہتے ہیں کہ اپوزیشن این آر او مانگ رہی ہے۔ پنجاب اسمبلی میں ایوان سے باہر مسلم لیگی ارکان اسمبلی نے نعرے بازی کی اور لوٹے اچھالے۔ میاں جلیل شرقپوری نے اپنے ساتھ ہونے والے تضحیک آمیز رویے کے خلاف سپیکر کو درخواست جمع کروا دی۔ میاں جلیل شرقپوری کا کہنا تھاکہ لیگی رکن میاں روف اور دیگر نے میرے ساتھ بدتمزی کی یہ معاملہ جماعت کا نہیں چند افراد کا ہے۔ وزیراعلی سے ملنا کوئی غلط بات نہیں اگر مجھے ملاقات سے روکنا ہے تو وزیراعلی روکیں۔ میاں نواز شریف کے بیانیہ میں الفاظ انتہائی سخت ہیں۔ اداروں کے خلاف اتنی سخت زبان استعمال نہیں ہونی چاہئیے۔ دوسری جانب سپیکر پنجاب اسمبلی نے جلیل احمد شرقپوری کی درخواست سے لا علمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میرے پاس کارروائی کے لئے جلیل احمد شرقپوری کی کوئی درخواست نہیں آئی۔ واقعہ اسمبلی ایوان کے اندر نہیں ایوان سے باہر ہوا ہے اور یہ معاملہ ان کی اپنی پارٹی کا معاملہ ہے۔ پی ڈی ایم کے جلسے کے سوال پر سپیکر پنجاب اسمبلی نے کوئی جواب نہ دیا۔ پنجاب اسمبلی کا اجلاس دو گھنٹے 20منٹ کی تاخیر سے سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی کی صدارت میں شروع ہوا۔ اجلاس میں محکمہ زراعت کے متعلقہ ممبران کے سوالوں کے جوابات متعلقہ وزیرحسنین جہانیاں نے دیئے۔ وقفہ سوالات کے بعد امن وامان پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ ن کے سردار اویس لغاری نے کہا کہ 2018 کے الیکشن کے بعد ہم جمہوریت کی خاطر اسمبلیوں کا حصہ بنے۔ ہم نے حکومت کو معیشت، امن و امان کے حوالے سے سپورٹ کی بھی بات کی۔ دو سال میں حکومت کی جانب سے اپوزیشن کے حوالے سے سخت موقف دیکھا۔ ہم نے ڈھائی سالوں میں میڈیا، عوام اور اداروں کی توہین ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ جتنی اس حکومت میں کرپشن ہورہی ہے وہ پاکستان کی تاریخ میں نہیں ہوئی۔ آج جھوٹ بولا جاتا ہے کہ اپوزیشن این آر او مانگ رہی ہے۔ میں اپنی پارٹی کی طرف سے واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ہمیں این آر او نہیں چاہیے۔ پیپلز پارٹی پنجاب کے پارلیمانی لیڈر سید حسن مرتضی نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ مجھے فخر ہے کہ میں7 ارکان پر مشتمل پارٹی کا لیڈر ہوں پارٹی چھوٹی بڑی نہیں ہوتی، سپیکر صاحب ! آپ نے اپنے دور حکومت میں کہا تھا کہ ہم پرویز مشرف کو دس بار وردی میں منتخب کریں گے۔ آپ کا ساتھ دینے والے ممبر بننے کے لیے آپ سے وفاداریاں تبدیل کر گئے ہیں۔ صوبائی وزیر قانون راجہ بشارت نے کہا کہ میاں برادران پر انکی حکومتوں کے دوران مقدمے بنے جب آپ کی وزارت عظمی کے دوران ہونے والی زیادتی کا ازالہ نہیں کر سکے تو اس کی ذمہ داری کس کی ہے۔ شاہد خاقان عباسی ایک سال تک وزارت عظمی کے مزے لیتے رہے، ایک اینکر نے نواز شریف فیملی کے کاغذات دکھائے ہیں۔ آپ حوصلہ کریں اس اینکرکے خلاف قرارداد لیکر آئیں، اپوزیشن کی ریکوزیشن میں لکھا کہ شہباز شریف کی غیر قانونی گرفتاری پر بات کرنی ہے۔ میاں شہباز شریف کو عمران خان نے گرفتار نہیں کیا، شہبازشریف نے فیصلہ آنے سے قبل اپنی درخواست واپس لے لی تھی۔ جب درخواست واپس ہوئی تو عدالت نے انہیں جیل بھیج دیا۔ اس میں حکومت کا کیا کردار ہے، حقائق کو تسلیم کریںجہاں سے اداروں کے خلاف بات شروع ہوئی وہ سب کچھ آپ کے سامنے ہیںکل قرارداد لیکر آتے ہیں افواج پاکستان کے حق میں ساتھ دیں، آئیں ملکر افواج پاکستان کے حوالے سے قرارداد لیکر آئیں، جس میں یہ ہوگا کہ افواج پاکستان کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں، میں اپوزیشن کی بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے، تحریک انصاف کی حکومت پاکستان کے معاشی حالات ٹھیک کر رہے ہیں، چوہدری پرویز الٰہی 1 سو ارب سرپلس چھوڑ کر گئے تھے جب آپ نے حکومت چھوڑی تو 50 روپے کے چیک بھی ڈس آنر ہوئے، ن لیگ نے 11 سو ارب کا قرض چھوڑا ہے، صوبے کی بہتری کے لیے اپوزیشن حکومت کا ساتھ دیں، اداروں کا احترام سب پر لازم ہے۔عدلیہ اور فوج کے حق میں مل کر قراردادیں لیکر آتے ہیں۔ وقت ختم ہونے پر سپیکر نے پنجاب اسمبلی کا اجلاس پیر 12اکتوبر دوپہر دو بجے تک ملتوی کردیا۔