• news

ریمانڈ میں 20اکتوبر تک توسیع ، خصوصی کرسی کی اجازت نہیں ، عمران، شہزاد اکبر کے حکم پر تکلیف دی جارہی ہے: شہباز شریف

لاہور (اپنے نامہ نگار سے) احتساب عدالت نے منی لانڈرنگ اور آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں  شہباز شریف کو 20 اکتوبر تک جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے کرتے ہوئے ایک ہفتے میں تفتیش مکمل کرنے کی ہدایت کی جبکہ حمزہ شہباز کے جوڈیشل ریمانڈ میں 27 اکتوبر تک توسیع کردی گئی۔ شہباز شریف کی اہلیہ نصرت شہباز کی مستقل حاضری  سے استثناء کی درخواست  بھی دائر کر دی گئی۔ سماعت میں شریک ملزموں قاسم قیوم، فضل داد عباسی، نثار احمد، مسرور انور، شعیب قمر، محمد عثمان و دیگر  کی حاضری مکمل کی گئی جبکہ جویریہ علی کے وکیل نے حاضری مکمل کرائی۔ عدالت نے زیر حراست ملزموں کو کمرہ عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا اور استفسار کیا کہ شہباز شریف ابھی تک کیوں پیش نہیں ہوئے، جس پر نیب پراسیکیوٹر نے موقف اختیار کیا کہ کوشش ہوتی ہے جلدی لایا جائے مگر ملزم خود جلدی نہیں نکلتا۔ جیل حکام کی جانب سے حمزہ شہباز کو عدالت کے روبرو پیش کیا گیا۔کمرہ عدالت میں شور شرابے پر جج نے برہمی کا اظہار کیا، اپنے  چیمبر میں چلے گئے۔ شہباز شریف کے وکیل کی استدعا پر جج دوبارہ کمرہ عدالت میں آئے اور سماعت شروع کی۔ شہباز شریف نے عدالت کو آگاہ کیا کہ آپ کے گزشتہ نوٹس پر میرے کھانے کا معاملہ حل ہو گیا ہے لیکن مجھے کمر کا مسئلہ ہے، مجھے نماز پڑھنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے، مجھے خود گھر سے ریوالونگ چیئر منگوانی پڑی تاکہ نماز پڑھ سکوں، کرسی کی اجازت نہیں دی جارہی، عمران خان اور شہزاد اکبر کے حکم پر مجھے تکلیف دی جارہی ہے، ایک شخص کو وہاں تکلیف پہنچائی جارہی ہے جہاں اسے پہلے ہی تکلیف ہے۔ میری کمر میں درد کی وجہ سے تھیراپی کروانے کی اجازت دی جائے۔ سرکاری وکیل نے موقف اختیار کیا کہ  مکمل سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں،شہباز شریف کو میڈکل بیڈ فراہم کیا گیا۔عدالت نے کہا کہ آپ باقاعدہ درخواست لکھ کر دیں تفصیلی حکم عدالت جاری کردے گی۔ عدالت نے استفسار کیا کہ نصرت شہباز کیوں پیش نہیں ہوئیں۔امجد پرویز ایڈوکیٹ نے کہا کہ نصرت شہباز بیمار ہیں اور ان کا بیرون ملک علاج جاری ہے ،عدالت نے کہا کہ ایک بار خاتون کو پیش کردیںبعد میں جویریہ کی طرح حاضری معافی منظور کرلیں گے۔ وکیل نے کہا کہ نصرت شہباز خود چل کر واش روم بھی نہیں جا سکتیں،عدالت نصرت شہباز کی حاضری سے مستقل معافی کی درخواست منظور کرے۔ شہباز شریف نے عدالت میں کہا کہ میں کینسر کی سرجری کروا کر وطن واپس لوٹا ،مجھے پتہ تھا کہ ڈکٹیٹر پرویز مشرف مجھے جیل میں ڈال دے گا اگر میرے پاس اتنا پیسہ ہوتا تو ملک واپس آنے کی بجاے لندن میں عیش کرتا ،ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے پاکستان اترنے کی اجازت نہیں دی،جب مجھے واپس جدہ بھجوایا گیا تولندن جا کر سوچا کہ کوئی کام کرنا چاہیے ،میں نے اپنا کاروبار شروع کیا تاکہ زندگی گزاری جا سکتی ،2005 سے پہلے میرا ایک پیسے کا کاروبار انگلینڈ میں نہیں تھا۔نیب پراسکیوٹر  نے کہا کہ دوران تفتیش شہباز شریف نے بیرون ملک پراپرٹی کا تاحال ریکارڈ فراہم نہیں کیا۔ رقم دو ماہ قبل تک اکائونٹس سے بیرون ملک جا رہی تھی ،شہباز شریف گزشتہ چھ ماہ کا ریکارڈ نیب کو فراہم کردیں ،شہباز شریف چھ ماہ کا ریکارڈ نیب کو فراہم نہیں کررہے ،شہباز شریف نے عام انتخابات 2018 کے کاغذات نامزدگی میں اپنی آمدن میں بھی حقائق چھپائے ،شہباز شریف بیرون ملک میں فلیٹس خریدنے کے ذرائع بتائیں۔ شہباز شریف سے فلیٹس سے متعلق پوچھا گیا،شہباز شریف نے اپنے جواب میں بتایا کہ فلیٹس خریداری کے لئے مختلف شخصیات سے رقم ادھار لی،شہباز شریف نے جواب میں بتایا کہ رقم انیل مسرت اور اور اجمل عاصی سے لی،شہباز شریف سے ان فلیٹس سے متعلق پوچھا گیا کہ تب ان کاذرائع آمدن کیا تھا،شہباز شریف نے 136 کنال اراضی 2011 میں فروخت کی،شہباز شریف کے وکیل نے کہا کہ بیرون ملک خریدے گئے فلیٹس کی 85 فیصد رقم بنکوں سے لی گئی، فلیٹس خریدنے کے لئے رقم کہاں سے آئی ،کس نے دی مکمل تفصیلات جمع کروا چکے ہیں، 2007 میں اپنے داماد سے تحفے میں 20 ہزار پائونڈ لیے اس کی رسیدیں مانگتے ہیں، اب کہہ رہے ہیں،بیچی گئی اراضی سے متعلق تحقیقات کرنا چاہتے ہیں،یہ سوال بھی نیا نہیں ہے اس کا بھی جواب دے چکے ہیں، اراضی کی ایک رجسٹری گم ہو چکی ہے، اس کی نقل 2018 میںبنائی گئی وہ بھی فراہم کر چکے ہیں، پراسیکیوٹر نے کہا کہ اثاثوں کا ہونا کوئی مسئلہ نہیں لیکن اس کے ذرائع کیا ہیں اس سے متعلق تفتیش کرنا ہے۔ شہباز شریف نے کہا کہ اللہ تعالی نے مجھے تین مرتبہ صوبے کی خدمت کا موقع دیا۔ میرے سیکرٹری ڈاکٹر توقیر تھے وہ ابھی  حیات ہیں۔ 2008 میں ڈاکٹر توقیر کو سامنے بٹھا کر کہا کہ میرے خاندان کو ایک دھیلا بھی قرضہ نہیں دینا۔ پنجاب بنک سے میرے خاندان کو کوئی قرض نہیں دیا گیا۔ میں نے کہیں بھی اپنے اختیارات سے تجاوز نہیں کیا۔ اس سے زیادہ میری دیانت کی اور کیا مثال ہوسکتی ہے۔ جج نے نیب تفتیشی سے استفسار کیا کہ شہباز شریف کا نیب کو دوبارہ ریمانڈ کس گرائونڈ پر چاہیے۔ عدالت نے کہا کہ جب شہباز شریف آپ کے سوالات کا جواب نہیں دیتے تو ملزم اپنا خود نقصان کرے گا۔ نیب کے تفیشی افسر نے کہا کہ ایچ بی ایل بنک جیل روڈ سے افضال بھٹی کو پیسے جاتے ہیں، افضال بھٹی ان کا یو کے میں اکائونٹنٹ ہے۔ ہم نے سوال کرنا ہے کہ یہ رقم کن ذرائع سے باہر جاتی رہی۔ اگر شہباز شریف اس سوال کا جواب نہیں دیتے تو ہم نے کچھ ریکارڈ سے سامنا کرانا ہے۔ لندن کے بنک کو کاغذات اور دستاویزات کے لیے خط لکھ دیا ہے۔ لندن کے بنک کا جواب آنا ہے وہ دستاویزات سے بھی سامنا کرانا ہے۔ جج نے  سلیمان شہباز کو ایک بار پھر پیش ہونے کی وارننگ دیدی۔

ای پیپر-دی نیشن