• news
  • image

بدھ  ‘ 26 ؍ صفرالمظفر 1442ھ‘  14؍اکتوبر  2020ء

گوجرانوالہ جلسے کا مسئلہ ، مقررہ مقام پر اجازت نہ ملنے پر جی ٹی روڈ پر میدان لگے گا: مسلم لیگ (ن) 
دونوں طرف سے آگ برابر لگی ہوئی۔ ایک چھوٹے سے مسئلے پر دونوں فریقوں کے درمیان اس وقت ٹھنی ہوئی ہے۔ اس طرح جلسہ کہاں ہو گا کا مسئلہ حل نہیں ہو رہا۔ ہر ایک نے جگہ کے تعین کوناک کا مسئلہ بنا لیا ہے۔ اس کا نقصان زیادہ ہے۔ ویسے بھی جلسہ تو ہونا ہی ہے۔ کہاں بھی ہو اب یہ ہاٹ ایشو بن گیا ہے۔ جہاں بھی ہو گا انتظامیہ کی مہربانی سے کامیاب ہی ہو گا۔ کیوں کہ پہلے صرف ہونا ہی تھا اب لازمی کامیاب کرانا مسلم لیگ (ن) والوں کی ضد بن گئی ہے۔ ہمارے ہاں یہی سیاسی رسہ کشی ذاتی جنگ کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ اگر انتظامیہ پہلے ہی اجازت دے دیتی تو یہ مسئلہ اتنی اہمیت اختیار نہ کرتا بس جلسہ ہو جاتا ۔ کامیاب ہوتا یا ناکام یہ بعد کی بات تھی۔ بہتر تھا کہ انتظامیہ اسے انا کا مسئلہ نہ بناتی اور جلسے کی اجازت دیتی۔ یوں یہ جلسہ آرام سے گزر جاتا۔ اب اس پر سیاست ہو رہی ہے۔ اپوزیشن والے اسے ہر صورت کامیاب کرانے پر تلے ہوئے ہیں جبکہ انتظامیہ اسے ہر صورت ناکام بنانے پر تلی ہے۔ مسئلہ کب ہو گا جب یہ جلسہ اگر جی ٹی روڈ پر ہوا۔ یہ مین سڑک ہے یہاں جلسے کا مطلب سارا دن اور ساری رات سڑک کی بندش ہے جس سے لاکھوں افراد متاثر ہوں گے۔ شاید انتظامیہ بھی یہ چاہتی ہے۔ یوں بقول ابرار الحق 
جی ٹی روڈ تے بریکاں لگیاں 
نی بلو تیری ٹور ویکھ کے 
والا معاملہ سامنے آئے گا۔ میلہ خوب سجے گا۔ یوں یہ جلسہ مسلم لیگ (ن) کی وجہ سے نہیں گوجرانوالہ انتظامیہ کی وجہ سے انعقاد سے پہلے ہی کامیاب ہو رہا ہے۔ 
٭٭٭٭٭
سردیوں کی آمد کیساتھ گیس کی قلت سے شہری پریشان۔ 
نہ جانے کیوں ایک کے بعد ایک مسئلہ ہمارے ہاں سر اٹھانے لگتا ہے۔ لگتا ہے پریشانیوں نے ہمارے گھر کا راستہ دیکھ لیا ہے۔ حکمران ہوں یا عوام دونوں چونکہ عمل سے زیادہ تقدیر پر یقین رکھتے ہیں۔ اس لئے وہ ہر مشکل کے سامنے سرتسلیم خم کر دیتے ہیں۔ یہی ہماری کمزوری دیکھ کر مشکلات کو مسائل کو بھی ہمیں ستانے میں مزہ آ رہا ہے۔ سو وہ مزے کر رہے ہیں اور ہم تنگ ہو رہے ہیں۔ کبھی آٹاکی قلت، کبھی بجلی کی قلت، کبھی پانی کی کبھی چینی کی اور کبھی گیس کی قلت ہمیں زچ کئے رکھتی ہے۔ یوں
ایک زخم پہ اک اور زخم کی ہے طلب 
عجب نشہ ہے قربانیوں کے موسم کا 
سو اب سردی کا موسم آ چکا ہے۔ پہاڑی علاقوں میں سردی کاٹ کھانے کو دوڑ رہی ہے۔ میدانی علاقوںمیں سردی کا موسم دروازے پر دستک دے رہا ہے۔ اس موسم میں گیس کا استعمال بڑھ جاتا ہے ، جس کے نتیجے میں گیس کی قلت ہو جاتی ہے۔ یہ مسلسل کئی برسوں سے ہوتا آ رہا ہے۔ مگر کیا مجال ہے جو کوئی حکومت اس مسئلے کا کوئی حل نکالے اور نہ اس مسئلے کا حل نکالنے پر کوئی توجہ دیتا ہے۔ اب کہ برس بھی یہی ہونے لگا ہے۔سردی آتے ہی گیس کی آنکھ مچولی شروع ہو جاتی ہے۔ اس کام میں بڑا ہاتھ گیس چوری کرنیوالے مافیا کا بھی جو بے حساب و کتاب گیس چوری کرتا ہے۔ اگر یہ چوردروازہ بند ہو جائے تو رسد میں بہتری آ سکتی ہے۔ مگر ایساکرے گا کون اور کب جب تک یہ نہیں ہوتا یا گیس کے نئے ذخیرے دریافت نہیں ہوتے یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ 
٭٭٭٭٭
شرح پیدائش میں پاکستان جنوبی ایشیا میں سب سے اول ، بچوںکی رجسٹریشن میںسب سے آخر 
چلیںجی بیٹھے بٹھائے یہ دو اعزاز ہمارے حصے میں خودبخود آ گئے۔ شرح پیدائش میںاضافہ کوئی نئی بات نہیںیہ ہمارے ہاں عرصہ دراز سے سب سے زیادہ ہے اور عرصہ دراز تک رہنے کی امید بھی ہے کیوں کہ تمام کوششوںکے باوجود یہ شرح نہ ہماری کوششوںسے نہ حکومت کی کوششوں سے قابو میں آ رہی۔ پوری قوم دھڑا دھڑ بچوں کی تعداد بڑھانے میں یکسو ہے۔ کسی کی نصیحت یا بات خاطر میں نہیںلاتی۔ کم بچے خوشحال گھرانہ کا نعرہ دم توڑ چکا ہے۔ ہر طرف بچوںکی پیدائش پر مبارک سلامت کا شور سنائی دیتا ہے۔ ایک دو بچوں تک مبارک سلامت کا غلغلہ تو سمجھ میں آتا ہے۔ مگر یہ جو چوتھے پانچویں اور چھٹے بچے کی پیدائش پر بھی مٹھائیاں بانٹی جاتی ہیں اس سے ہماری بہبود یا کنٹرول آبادی کے پروگرام سے نفرت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اسوقت ہم جنوبی ایشیاء میںبچوںکی پیدائش کے لحاظ سے سب سے اول ہیں۔ صرف یہی نہیں بچوں کی پیدائش کے بعدان کی رجسٹریشن نہ کرانے کی صفت میںبھی ہم سب سے نیچے یعنی آخر میںہے۔ یوں بچوں کی وجہ سے ہم اول و آخر کا اعزاز اپنے پاس رکھتے ہیں۔ اگر اتنے بچے پیدا نہ ہوں انکی رجسٹریشن یعنی اندراج نہ ہو تو یہ اعزاز ہمارے پاس کہاں سے آتا۔ یہ تو تھوک کے حساب سے پیدا ہونے والے بچوں کا احسان ہے کہ یہ اعزازات ہمارے پاس ہیں۔ اب اس کا انجام جو بھی ہو اس سے کسی کو دلچسپی نہیں۔ یہی جہالت اور بے پروائی ہماری ملکی معیشت کو تباہ کر رہی ہے۔ 
٭٭٭٭٭
حکومت سندھ کی ہدایت پر گلوکار شوکت علی کا کراچی میں مفت علاج شروع 
سندھ حکومت میں لاکھ برائیاں گنوائی جا سکتی ہیں۔ مگر اسکی اچھائیاں بھی قابلِ ذکر ہیں۔ کئی معاملات میں سندھ حکومت کی کارکردگی تمام تر اختلافات کے باوجود بہتر نظر آتی ہے۔ اب ملک کے نامور گلوکار شوکت علی کو ہی دیکھ لیں یہ پنجاب کے بڑے نامور گلوکار ہیں۔ اب آج کل شدید بیمار بھی ہیں۔ انکی حالت زار پر پنجاب حکومت کو ترس نہیں آیا تو سندھ حکومت نے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کی ہدایت پر ان کو کراچی بلایا اور وہاں ایک اچھے ہسپتال میں ان کا مفت علاج ہو رہا ہے۔ یہ شوکت علی کی خوش قسمتی ہے انہیں کوئی قدر دان ملا اور ان کا علاج ہو رہا ہے۔ پنجاب میں بے شمار اداکار ، گلوکار ، فن اور ثقافت سے تعلق رکھنے والے لوگ حکومت سے اپیلیں کرتے ہوئے اپنی بے بسی اور لاچاری کی دہائی دیتے ہوئے اگلے جہاں رخصت ہو گئے۔  فنکار کوئی بھی ہو بڑا احساس اور بے پرواہ ہوتا ہے۔ جب انکے پاس عروج کا دور ہوتا ہے پیسہ آتا ہے تو یہ اسے جوڑنے کی بجائے اُڑانے پرزیادہ توجہ دیتے ہیں۔ بُرا وقت آئے تو اپنے ہی ان کا بچا کچھا لوٹ لیتے ہیں۔ جس کے بعد فنکاروں کی اکثریت کسمپرسی کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ ہاں جن فنکاروں کے پاس عقل ہوتی ہے وہ اپنے بڑھاپے کیلئے بہت کچھ پس انداز کر لیتے ہیں۔ اگر ہماری حکومت ایسے فنکاروں کی روزی اور علاج کیلئے جن کے پاس کچھ نہیں معقول ماہانہ مقرر کرے تو انہیں آرام مل سکتا ہے۔ 

epaper

ای پیپر-دی نیشن