• news

حکومت جتنے مرضی کمشن بنالے اقلیتوں پر عدالتی کمشن کو نہیں چھیڑ سکتی: چیف جسٹس

اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے عدالتی فیصلے کے فوائد عوام تک پہنچائیں گے۔ عدالتی فیصلے فائلوں میں رکھنے کیلئے نہیں ہوتے، کاغذی کارروائی سے کچھ نہیں ہوگا۔ حکومت جتنے مرضی کمیشن بنائے مگر اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے قائم عدالتی کمیشن کو نہیں چھیڑ سکتی۔ عدالت نے اقلیتوں کیلئے حکومتی کمیشن کی تشکیل پر اظہار برہمی کیا چیف جسٹس گلزار احمد نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ عدالت پہلے ایک کمیشن بنا چکی ہے حکومت نے نیا کمیشن کیسے بنا دیا؟ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ اس معاملے پرانہیں بھی ابہام ہے۔  جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ حکومت دوسرے کاموں کیلئے جتنے مرضی کمیشن بنائے مگر ایک دوسرے کے راستے میں نہیں آنا چاہئے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ نیا کمیشن کس کے ماتحت ہے؟۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ کمیشن وزارت مذہبی امور کے ماتحت ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی مذہبی امور سیکرٹری کو بلا کر معلوم کر لیتے ہیں کہ کمیشن کیسا بنا؟۔ عدالت نے نئے کمیشن کی تشکیل پر سیکرٹری مذہبی امور کو فوری طلب کر لیا۔  مختصر وقفہ کے بعد دوبارہ سماعت ہوئی تو جوائنٹ سیکرٹری وزارت مذہبی امور عدالت میں پیش ہوگئے ، اس دوران پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی رمیش کمار اپنی ہی حکومت کیخلاف پھٹ پڑے۔ انکا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت عدالت کی جانب سے قائم کمیشن سے تعاون نہیں کر رہی۔ وفاقی حکومت کا حصہ ہوں لیکن وزارت مذہبی امور نے ایک روپے کا کام نہیں کیا۔ رمیش کمار کاکہنا تھاکہ اقلیتی کونسل کیلئے بل وزیر مذہبی امور کو دیا لیکن کوئی جواب نہیں ملا، وفاق نے کمیشن بنایا جس کے بعد صوبوں نے بھی الگ کمیشن بنا دیئے ہیں۔ چیف جسٹس  نے کہا کہ  عدالتی فیصلے کے مطابق نصاب اور ملازمتوں کے حوالے سے کیا اقدامات ہوئے؟ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے بتایا کہ اسلام آباد میں اقلیتوں کی 108 عبادتگاہوں کو سکیورٹی دی گئی ہے ملازمتوں میں اقلیتوں کے کوٹے پر بھی عملدرآمد ہورہا ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ کاغذی کارروائی سے کچھ نہیں ہوگا عدالت نے وفاقی وزارت تعلیم اور مذہبی امور کے سیکرٹریز کو 23 اکتوبر کو طلب کر تے ہوئے حکم دیا کہ دونوں سیکرٹریز تمام عملی اقدامات کی تفصیلات ریکارڈ سمیت پیش کریں۔ علاوہ  ازیں پنشن سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران سابق ونگ کمانڈر احسن طفیل کیس میں سپریم کورٹ نے بلوچستان حکومت کے وکیل کو جواب جمع کروانے کیلئے مہلت دے دی۔  درخواست گزار ونگ کمانڈر احسن طفیل نے کہاکہ انہوں نے 27 سال حکومت پاکستان کو خدمات دی ہیں۔ میری خدمات بلوچستان حکومت کے پاس تھیں وہ مجھے پنشن دے۔ اس پر چیف جسٹس نے ونگ کمانڈر سے کہاکہ آپ خود کو بہت سمجھدار سمجھ رہے ہیں۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو قانون کے تابع ہے۔ وائس ایئر چیف آپ کی خدمات کیسے کسی صوبے کو دے سکتا ہے؟ کس قانون کے تحت آپ کی خدمات صوبے کو دی گئیں؟ کیا اخبار میں اشتہار دیا گیا تھا۔ آپ کو بلوچستان میں جس عہدے پر تعینات کیا گیا اگر ہم نے میرٹ پر بات کی تو آپ کی بلوچستان میں نوکری غیر قانونی قرار پائے گی۔ اس دوران سابق ونگ کمانڈر عدالتی سوالات سننے کے بعد لڑکھڑا کر گر گئے تو عدالتی عملے نے انہیں کرسی پر بٹھا دیا اور فوری طور پر ڈاکٹر کو طلب کر لیا گیا، اس دوران کیس کی سماعت میں وقفہ کردیا گیا۔ 

ای پیپر-دی نیشن