گڈ مصباح سے بیڈ مصباح، گڈ چیف سے بیڈ چیف کا سفر جاری
لاہور (حافظ محمد عمران/نمائندہ سپورٹس) مصباح الحق کی طرف سے چیف سلیکٹر کے عہدے سے علیحدگی یہ ثابت کرتی ہے کہ گڈ مصباح سے بیڈ مصباح، گڈ چیف سے بیڈ چیف کا سفر جاری ہے۔ مصباح الحق اور پاکستان کرکٹ بورڈ کا تعلق بھی نئی نویلی دلہن اور نئی گاڑی سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ نئی نویلی دلہن اور گاڑی دونوں کا بہت خیال رکھا جاتا ہے،ناز نخرے اٹھائے جاتے ہیں لیکن وقت کیساتھ ساتھ دونوں کی اہمیت کم ہوتی رہتی ہے۔ یہی حال مصباح الحق کا ہے۔ ستمبر دو ہزار انیس میں انہیں قومی ٹیم کا ہیڈ کوچ، چیف سلیکٹر، بیٹنگ کوچ مقرر کرتے ہوئے بلند و بانگ دعوے کیے اور انہیں ملکی کرکٹ میں سیاہ و سفید کا مالک بنا دیا گیا۔ جیسے سسرال کو نئی دلہن اور نئی گاڑی کے مالک کو کار میں کوئی خامی یا خرابی نظر نہیں آتی ایسے ہی ایک سال پہلے کرکٹ بورڈ بھی مصباح الحق کے آگے بچھا بچھا جا رہا تھا اتنے عہدے اور اعلیٰ حکام کے بیپناہ اعتماد کے بعد وہ ایک طاقتور شخصیت کے طور پر سامنے آئے۔ قومی ٹیم کیساتھ قائد اعظم ٹرافی اور سیکنڈ الیون کا انتخاب، آفیشلز کی تعیناتی، مستقبل کی منصوبہ بندی، ٹریننگ کے طریقہ کار ہر کام میں فرد واحد مصباح الحق ہی پہلا اور آخری انتخاب اور ان کا کہا حرف آخر سمجھا جاتا تھا۔ فرسٹ کلاس ٹیموں میں شامل کھلاڑی کسی بات پر اعتراض کرتے تو انہیں جواب ملتا کہ "اتوں آرڈر آیا اے"۔ پھر یوں ہوا کہ مصباح الحق پرانے ہوتے گئے پرانے ہوتے مصباح الحق میں خامیاں نظر آنے لگیں ایک سال پہلے ان کی گفتگو کو ایک تجربہ کار، ماہر اور کھیل کے بہترین دماغ کا درجہ دیا جاتا تھا پھر یہ کہا جانا لگے کا مصباح الحق کبھی خوش نہیں ہو سکتا، یہ کبھی مثبت بات نہیں کر سکتا، اس کو مطمئن کرنا ممکن نہیں ہے۔ بھرپور اعتماد کا نعرہ لگانے والوں نے بنیادوں سے اینٹیں نکالنا شروع کیں۔ ٹیم کی کارکردگی، ہیڈ کوچ و چیف سلیکٹر کے فیصلوں پر سوالات اٹھنے لگے، پھر یونس خان ٹیم انتظامیہ کا حصہ بن گئے۔ دو ہزار بیس میں فرسٹ کلاس ٹیموں کے کوچز اور سلیکشن کمیٹی کے ارکان کا انتخاب کرتے وقت دوہزار انیس کے سب سے اہم اور بہترین دماغ کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ پھر وہ اپنے بادشاہ سلامت کو اعتماد میں لیے بغیر وزیراعظم عمران خان کو ملنے جا پہنچے۔ ان کی اس شاٹ کو بھی 2007 کے ورلڈ ٹونٹی ٹونٹی کے فائنل میں کھیلی گئی شاٹ سے زیادہ ناپسندیدہ قرار دیا گیا۔ جب پسندیدہ ناپسندیدہ ہونے لگے تو پھر اچانک یہ خیال آتا ہے کہ آنے والے دنوں میں بہت کرکٹ ہے پھر ورک لوڈ ہی ایسا مسحور کن بہانہ ہے جسے علیحدگی کا عذر بنا کر ساحر لدھیانوی کو یاد کیا جا سکتا ہے کہ وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکناسے اک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھایوں مصباح الحق بھی چیف سلیکٹر کے عہدے سے الگ ہوگئے۔ باقی سب بہانے ہیں حقیقت یہی ہے کہ وہ پرانے ہو گئے ہیں اور اہمیت میں کمی سے زیادہ ان میں کوئی نئی خامی نئی ابھری۔