ایلیٹ کیلئے کوئی قانون نہیں، یہ سب سے بڑا مسئلہ ہے: چیف جسٹس اسلام آباد
اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ کی عدالت نے ریڈزون میں ایم پی اے کے شوہر اور جج جہانگیر اعوان کے درمیان جھگڑاکیس میں وفاقی پولیس کی طرف سے کارروائی کیلئے مہلت کی استدعاپر سماعت ملتوی کرتے ہوئے آئی جی اسلام آباد کو معاملہ کی انکوائری کرکے رپورٹ عدالت جمع کرانے جی ہدایت کردی۔ شریک ملزم بلال عباسی کی ضمانت کی درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس نے مرکزی ملزموں کی عدم گرفتاری پر ایس پی پرسخت برہمی کا اظہارکرتے ہوئے کہاکہ کیا ملزمان اتنے طاقتور ہیں کہ انکو گرفتار نہیں کیا جا سکتا،کیوں نہ عدالت ان کے خلاف کارروائی کرے جنہوں نے اس ملزم گرفتار کیا،کیا یہ قانون کی حکمرانی ہے کہ ریڈزون میں ایسا واقعہ ہوا اور اسے لائٹ لیا جا رہا ہے، اسی لئے عدالت بار بار کہتی ہے کہ اسلام آباد میں قانون کی بالادستی نہیں، چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہاکہ کیا سیکرٹری داخلہ اور آئی جی اسلام آباد کو نوٹس جاری کریں کہ آ کر دیکھیں کیا ہو رہا ہے۔ ایس پی صاحب، آپکو عدالت کو مطمئن کرنا ہو گا، جن دو لوگوں کے درمیان جھگڑا ہوا وہ کہاں ہیں انکو گرفتار کیوں نہیں کیا گیا، یہ آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔ ایلیٹ کیلئے کوئی قانون نہیں یہ سب سے بڑا مسئلہ ہے، ایس پی عمر خان نے کہاکہ ہمیں ایک موقع دیدیں اس معاملے کو دیکھیں گے۔ جس پر چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہاکہ کیوں نہ یہ عدالت ایس ایچ او کے خلاف کارروائی کرے، آئی جی کو کہیں انکوائری کریں اور رپورٹ عدالت میں جمع کرائیں، چیف جسٹس نے استفسارکیاکہ کیا ریاست اس طرح چل سکتی ہے،کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں اور کسی کو قانون سے بالاتر ہونا بھی نہیں چاہیے، جو متعلقہ ایس ایچ او تھا اسکو تو اب نوکری پر ہی نہیں ہونا چاہیے۔ ایس ایچ او نے ملزموں کو تھانے سے جانے کیسے دیا،مرکزی ملزم کو تھانے سے جانے دیا گیا اور خانہ پری کیلئے بندہ پکڑ لیا گیا۔ یہ واقعہ ریڈزون میں پیش آیا۔ مرکزی ملزم کون تھا۔ ایس پی عمرخان نے بتایاکہ چوہدری خرم مرکزی ملزم ہے، جس پر عدالت نے استفسارکیاکہ چوہدری خرم اتنا اہم کیوں ہے۔ اس پر ایس پی عمر خان نے کہاکہ وہ اہم نہیں ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ وہ اہم ہے، اگر وہ دو عام شہری ہوتے تو کیا ہوتا، جو عام شہری تھا اسے ملزم بنا کر جیل میں بند کر دیا گیا۔ اس عدالت کو دکھائیں کہ اسلام آباد میں قانون کی بالادستی ہے۔ اگر آپ ایسا نہیں کر سکتے تو سیکرٹری داخلہ اور آئی جی عدالت میں پیش ہوں، قانون سب کیلئے برابر ہونا چاہیے۔