ججز کیخلاف زبان درازی پر حکومتی خاموشی کے کیا معنی ہیں: ہائیکورٹ
لاہور (وقائع نگار خصوصی) لاہور ہائیکورٹ نے فیس بک سے گستاخانہ مواد ہٹانے اور مقدمہ کے اندراج کیلئے دائر درخواست میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے تفصیلی رپورٹ پیش کر دی۔ چیف جسٹس نے قرار دیا کہ سوشل میڈیا پر چینلز بنائے گئے ہیں۔ توہین آمیز مواد پر ان کیخلاف کیا کارروائی کی جاتی ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ شکایت پر ان کیخلاف کارروائی کی جاتی ہے۔ عدالت نے کہا کہ اس کا مطلب ہے عدلیہ کے ججوں کیخلاف مواد ہو تو اسے بھی درخواست دینا ہوگی۔ ایک خاص ادارے کیخلاف بات ہوئی تو اس کیلئے قابل تعزیر دفعات بنا دی گئی۔ عدلیہ جس کے بارے میں پارلیمنٹ میں بھی بات نہیں ہو سکتی۔ عدلیہ کے ججوں کیخلاف زبان درازی پر حکومت کی خاموشی کے کیا معنی ہیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ از خود بھی ادارے عدلیہ کے خلاف مواد پر کارروائی کر سکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ وفاقی حکومت اور اداروں سے ہدایات لے کر جواب دیدیں۔ سرکاری افسر نے عدالت کو بتایا کہ سات فرقہ بازی کے اکائونٹس بند کر دئیے۔ مواد ہٹانے کے بعد دوبارہ نہیں دیکھا جا سکتا۔ عدالت نے کہا کہ ابھی آئی ٹی ماہر کو بلا لیتے ہیں تمام لنک چیک کرا لیتے ہیں۔ عدالت میں غلط بیانی کرتے ہیں آپ کی کہی بات پر یقین نہیں۔ ایف آئی اے سے بھی رپورٹ منگوا لیتے ہیں کتنے آدمی گرفتار کیے ہیں۔