کون فیصلہ کرتا ہے یہ غیر اخلاقی ہے ٹک ٹاک پر پابندی کیوں نہ پی ٹی اے کیخلاف کاروائی کی جائے جسٹس اطہر
اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ کی عدالت نے موبائل ایپ ٹک ٹاک پر پابندی کے خلاف درخواست پر جواب کیلئے پی ٹی اے کو نوٹس جاری کرتے ہوئے پی ٹی اے کے سینئر افسر کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا اور کہا ہے کہ کیوں نہ پی ٹی اے کے خلاف کارروائی شروع کی جائے۔ درخواست میں سیکرٹری کابینہ ڈویژن، سیکرٹری انفارمیشن ٹیکنالوجی اور چیئرمین پی ٹی اے کو فریق بناتے ہوئے موقف اختیار کیا گیا کہ پی ٹی اے نے 9 اکتوبرکو قانونی تقاضے پورے کیے بغیر ٹک ٹاک پر پابندی عائد کی۔ پی ٹی اے نے واضح حکم جاری کیے بغیر پریس ریلیز کے ذریعے پابندی عائد کی۔ پیکا ایکٹ کی سیکشن37 ون کے تحت عارضی معطلی کا کوئی تصور نہیں۔ پی ٹی اے نے وفاقی حکومت یا کابینہ کی منظوری کے بغیر فیصلہ کیا جو پیکا ایکٹ کی خلاف ورزی ہے۔ استدعا ہے کہ پی ٹی اے کو ٹک ٹاک پر پابندی ختم کرنے کا حکم دیا جائے۔ پی ٹی اے کو ہدایت کی جائے کہ ایسا کوئی بھی حکم جاری کرتے وقت وجوہات دی جائیں۔ پیکا ایکٹ کی سیکشن37 پر عمل کرتے ہوئے شہریوں کے بنیادی حقوق کو مدنظر رکھنے کی ہدایت کی جائے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ سکورٹی کے پس منظر میں تو ایپ پر پابندی نہیں لگائی گئی؟۔ اس طرح تو پھر پورا انٹرنیٹ بند کرنا پڑے گا۔ کون فیصلہ کرتا ہے کہ یہ غیر اخلاقی ہے، یہ غیر اخلاقی نہیں ہے۔ کیا ابھی پی ٹی اے نے پیکا 2016 ء کی شق 37 کے تحت رولز فریم نہیں کئے؟۔ درخواست گزار وکیل نے کہا کہ ابھی رولز فریم نہیں ہوئے۔ عدالت نے پی ٹی اے کو 90 دن کا وقت دیا تھا۔ عدالت نے مذکورہ بالا اقدامات کے ساتھ وائس چئیرمین پاکستان بار صدر پاکستان یونین آف جرنلسٹ اور جاوید جبار کو بھی نوٹس جاری کردیا۔