’’ مادرِ وؔطن ، مادرِ ؔملّتؒ ، مادرانِ ؔعلمی کو سلام!‘‘(1)
معزز قارئین ! گذشتہ دِنوں انفارمیشن گروپ کے بہت ہی سینئر ’’ پڑھاکو ‘‘ چیئرمین پیمرا پروفیسر محمد سلیم بیگ نے پہلے اپنی ’’ مادرِعلمی ‘‘ (گورنمنٹ کالج ، یونیورسٹی لاہور) اور پھر ’’ یونیورسٹی آف سرگودھا‘‘ کو سلام کِیا ۔پروفیسر محمد سلیم بیگ نے 1983 میں گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم ۔ اے ۔ پولیٹیکل سائنس کی ڈگری حاصل کی اور وہ ’’گورنمنٹ کالج لاہور سٹوڈنٹس یونین‘‘ کے منتخب صدر بھی رہے۔ چیئرمین پیمرا نے ’’ مادران علمی ‘‘ لاہور اور سرگودھا کے وائس چانسلر ز سیّد اصغر زیدی صاحب اور ڈاکٹر اشتیاق احمد صاحب سے دوستانہ اور محبت بھرے ماحول میں یاد گار وقت گزارا۔ فارسی زبان (اور اردو میں بھی ) ماں ؔ کو ، مادرؔ کہتے ہیں اور جس ملک میں ، کسی خاص قوم یا نظریہ کے لوگ بستے ہیں اُسے ’ ’ مادرِ وطن ‘‘ !
’’ مادرِعلمی ‘‘ لاہور کے طالبعلم کی حیثیت سے ’’ مصّور ِ پاکستان‘‘ علاّمہ اقبالؒ کا نام بھی آتا ہے ۔ 1904ء میں علاّمہ صاحب نے اپنی ایک نظم میں سارے ہندوستانیوں کو ایک قوم قرار دیتے ہُوئے ’’ ترانہ ہندی‘‘ کے نام سے اپنی نظم میں کہا تھا کہ … ؎
سارے جہاں سے اچھا ، ہندوستاں ؔ ہمارا!
ہم بُلبلیں ہیں اِس کی، یہ گلستاں ہمارا !
…O…
لیکن، پھر مصّور پاکستان کی حیثیت سے آپ نے فرمایا کہ … ؎
چین و عرب ہمارا ،ہندوستاں ؔ ہمارا!
مُسلم ؔہیں ہم ، وطن ہے ،سارا جہاؔں ہمارا!
…O…
14 اگست 1947ء کو قائداعظمؒ کی قیادت میں ہمارے بزرگوں نے الگ وطن حاصل کِیا تو ہم اِسے ’’مادرِوطن‘‘ کہتے ہیں اور انگریزی بولنے والی قومیں "Motherland" ۔
’’مادرِ ملّت محترمہ ،فاطمہ جناحؒ ! ‘‘
معزز قارئین! 1947ء میں مشرقی ( اب ) بھارتی پنجاب سے ہجرت کے بعد ہمارا خاندان ، تحریک پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ) کارکن ، میرے والد صاحب رانا فضل محمد چوہان کی سربراہی میں پاک پنجاب کے شہر سرگودھا میں آباد ہُوا ۔ مَیں نے میٹرک کے بعد شاعری شروع کردِی اور گورنمنٹ کالج سرگودھا میں بی۔ اے فائنل کے طالبعلم کی حیثیت سے ، مسلک صحافت اختیار کِیا ۔ فروری 1964ء میں جنابِ مجید نظامی نے مجھے سرگودھا میں ’’ نوائے وقت‘‘ کا نامہ نگار مقرر کِیا۔ 2 جنوری 1965ء کے پاکستان کے صدارتی انتخاب میں ’’پاکستان مسلم لیگ (کنونشن )‘‘ کے صدر ، صدرِ پاکستان فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان کے مقابلے میں قائداعظمؒ کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح ؒ پاکستان مسلم لیگ (کونسل )‘‘ کی امیدوار تھیں ، جب ’’ مفسرِ نظریۂ پاکستان‘‘ جناب مجید نظامی نے اُنہیں ’’ مادرِ ملّت ‘‘ کا خطاب دِیا تو متحدہ اپوزیشن نے بھی اُنہیں اپنا امیدوار بنا لِیا۔
مَیں اُن دِنوں سرگودھا میں روزنامہ ’’ نوائے وقت ‘‘ کا نامہ نگار تھا ، جب ضلع سرگودھا میں مادرِ ملّت ؒ کی انتخابی مہم کے انچارج، تحریک پاکستان کے نامور کارکن قاضی مُرید احمد ( مرحوم ) مجھے اور میرے صحافی دوست تاج اُلدّین حقیقت ؔکو مادرِ ملّتؒ سے ملاقات کے لئے لاہور لائے ۔ مادرِ ملّتؒ کونسل مسلم لیگ کیمیاں منظر بشیر کے گھر رہائش پذیر تھیں ، جب اُن سے میری اور تاج اُلدّین حقیقت ؔکی ملاقات ہُوئی تواُسی وقت تحریک پاکستان کے دو کارکنان لاہور کے مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری ( چیئرمین پیمرا پروفیسر محمد سلیم بیگ کے والد صاحب ) اور پاکپتن شریف کے میاں محمد اکرم ( اردو پنجابی کے نامور شاعر ’’ نوائے وقت ‘‘ کے سینئر ادارتی رُکن سعید آسی ؔ کے والد صاحب )سے میری ملاقات ہُوئی پھر دوستی ہوگئی۔
تحریک پاکستان کے دَوران مرزا شجاع اُلدّین بیگ کا آدھے سے زیادہ خاندان سِکھوں سے لڑتا ہُوا شہید ہُوا اور میاں محمد اکرم نے مہاجرین کی آباد کاری میں اہم کردار ادا کِیا تھا ۔ مرزا شجاع اُلدّین بیگ ،قادریہ ؔسلسلہ کے ولی ، بابا بُلھّے شاہ قصوریؒ کے عقیدت مند تھے اور میاں محمد اکرم چشتیہ ؔسلسلہ کے ولی ، پنجابی کے پہلے شاعر حضرت بابا فرید شکر گنج ؒ کے۔ 1967ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا کر ’’پاکستان پیپلز پارٹی ‘‘ قائم کی تو، مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری کہا کرتے تھے کہ ’’ بابا بُلھّے شاہ ؒ نے تو، صدیوں پہلے ہر بندے ( اِنسان ) کو یہ ہدایت کردِی تھی کہ …
’’ منگ اُوئے بندیا ، اللہ کولوں ،
گُلی، جُلی، کُلی!
…O…
یعنی ’’ اے بندے !تو اللہ سے روٹی، کپڑا اور مکان مانگ !‘‘۔
تحریک پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ) کارکن ، میاں محمد اکرم کو ، بابا فرید شکر گنج ؒ کا سارا کلام از بر تھا۔ وہ بھی محفلوں میں بابا فرید شکر گنج ؒکا یہ ’’ دوہا ‘‘ ( شعر ) سنایا کرتے تھے کہ …؎
فریدا! روٹی میری کاٹھ دِی، لاون میری بُھکّھ !
جنہاں کھاہدی چوپڑی ، گھنے سہن گے دُکھ !
…O…
یعنی ’’ اے فریدؒ!میری روٹی لکڑی کی ہے اور میری بھوک ہی میرا سالن ہے اور چُپڑی روٹی ( پراٹھے ) کھانے والے ( اُمرا ئ، خاص طور پر بد عنوان لوگ آخرت میں ) بہت دُکھ برداشت کریں گے ‘‘۔
معزز قارئین ! ہندی کے نامور شاعر ’’گوسوامی ‘‘ تُلسی دؔاس نے کہا تھا کہ …؎
تُلسی باؔنہہ سپُوت کی، بھُولے سے چُھو جائے!
آپ نِبھاوےؔ عُمر بھر ،بیٹے سے کہہ جائے !
…O…
یعنی ’’ اے تُلسی ؔ اگر کسی با کردار شخص کا بازو ، بھولے سے بھی کسی سے چھو جائے تو، وہ تاحیات دوستی نبھانا ہے اور انتقال سے پہلے اپنے بیٹے کو بھی دوستی کا سبق پڑھا جاتا ہے !‘‘۔
معزز قارئین ! مَیں سوچتا ہُوں کہ اگر عزیزم پروفیسر محمد سلیم بیگ انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ میں اور برادرم سعید آسی شاعر اور صحافی نہ ہوتے تو کیا پھر بھی اُن سے میری دوستی کے رشتے مضبوط ہو جاتے؟
………………(جاری ہے)