مہنگائی اور حکومتی بے بسی
حکومت کی پہلی آئینی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ وہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو کنٹرول میں رکھے اور ان کو اس حد تک نہ بڑھنے دے کہ وہ عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہونے لگیں- مہنگائی کو کنٹرول میں رکھنے کیلئے وزیراعظم عمران خان کی کوششیں کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو رہیں - گزشتہ دنوں مہنگائی کے ایجنڈے پر وفاقی کابینہ کا خصوصی اجلاس بلایا گیا تاکہ ان عوامل پر غور کیا جا سکے جو اشیاء کی قیمتوں کے بڑھنے کا باعث بن رہے ہیں- وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے پریس بریفنگ میں بتایا کیا کہ حکومت نے مہنگائی کو کنٹرول کرنے کیلئے ایسے اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کر لیا ہے جن کے نتیجے میں اشیاء کی قیمتیں کم ہو جائیں گی اور عوام کو ریلیف ملے گا- حکومت نے آٹے کی قیمت میں اضافہ کے سلسلے میں ذمہ داری سندھ حکومت پر ڈال دی ہے اور کہا ہے کہ سندھ حکومت نے چونکہ گندم وقت پر نہ خریدی جس کی وجہ سے آٹے کی قلت پیدا ہوئی اور اسکی قیمت میں اضافہ ہوگیا- شبلی فراز نے کہا کہ سندھ میں 20 کلو گرام آٹے کی قیمت گیارہ سو سے پندرہ سو روپے تک ہے جبکہ خیبرپختونخوا میں آٹا گیارہ سو سے تیرہ سو روپے ہے تک فروخت ہو رہا ہے- فکسڈ انکم والے سرکاری ملازمین کمر توڑ مہنگائی کی وجہ سے انتہائی پریشان ہیں اور وہ تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق اسلام آباد میں دھرنا دیے ہوئے ہیں - افسوس کی بات یہ ہے کہ معاشی پالیسی بنانے والوں میں کوئی ایک بھی فرد ایسا نہیں ہے جس کو معلوم ہو کہ بھوک اور مہنگائی کیا ہوتی ہے-معاشی ماہرین کے مطابق اس سال اشیاء کی قیمتوں میں جو غیر معمولی اضافہ ہوا ہے وہ پہلے کبھی نہیں ہوا- ایک نان جو دس روپے کا فروخت ہو رہا تھا اب پندرہ روپے کا فروخت ہو رہا ہے- گزشتہ سال کے مقابلے میں آٹے کی قیمت میں 60 فیصد اضافہ چینی میں تیس فیصد اضافہ مسور کی دال میں 25 فیصد اضافہ مونگ کی دال میں چالیس فیصد اضافہ ماش کی دال میں 30 فیصد اضافہ اور کوکنگ آئل میں 10 فیصد اضافہ ہوا ہے جو انتہائی غیر معمولی ہے اور جس کی وجہ سے عوام کی زندگیاں اجیرن ہوچکی ہیں- یہی حال سبزیوں کی قیمتوں کا ہے-پاکستان کے غریب عوام کی حالت زار بقول شاعر کچھ یوں ہے…؎
خون بیچ کر روٹی خرید لایا ہوں
فقیہہ شہر بتا یہ حلال ہے کہ حرام
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان سرمایہ دارانہ جاگیر دارانہ معاشی نظام میں مہنگائی غربت بے روزگاری محرومی اور نا انصافی اس نظام کی سرشت اور فطرت میں شامل ہے -ریاستی نظام مافیاز کے ہاتھوں یرغمال بن چکا ہے- مافیاز کے سامنے ریاست حکومت عدلیہ پولیس اور دیگر ریاستی ادارے سب بے بس نظر آتے ہیں- موجودہ حکومت ذخیرہ اندوزوں سپلائی میں تعطل پیدا کرنے والوں اور سمگلنگ میں ملوث عناصر کو قابو کر کے آئین اور قانون کے شکنجے میں نہیں لا سکی جو اس کی بے بسی ناکامی نااہلی اور بدانتظامی کا بہت بڑا ثبوت ہے- پاکستان میں اگر زرعی شعبے کی جانب توجہ دی جاتی تو آج یہ صورتحال نہ ہوتی - افسوس یہ ہے کہ حکومتوں نے اپنے مخصوص مفادات کے تابع زرعی شعبے کو ہمیشہ نظر انداز کیا ہے- ماہرین کے مطابق زرعی شعبے میں اس قدر صلاحیت اور اہلیت موجود ہے کہ ہم گرین انقلاب لا کر پاکستان کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر ڈال سکتے ہیں- سامراجی ملکوں اور انکے پاکستانی سہولت کاروں کے مفادات کی وجہ سے زرعی شعبے پر توجہ نہیں دی جاتی- پاکستان کو صارفین کی منڈی بنا دیا گیا ہے تا کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں پاکستان کے عوام کا خون چوستی رہیں-آئی ایم ایف نے اپنی ایک رپورٹ میں پیشین گوئی کی ہے کہ پاکستان میں اس سال افراط زر کی شرح آٹھ اعشاریہ آٹھ فیصد رہے گی کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ دو عشاریہ پانچ فیصد ہوگا جبکہ گروتھ ایک فیصد رہے گی- اس رپورٹ سے اندازہ ہوتا ہے کہ عوام کی مشکلات آسان ہونے والی نہیں ہیں-اپوزیشن کی جماعتوں نے موجودہ حکومت کیخلاف احتجاجی تحریک کا آغاز کردیا ہے-
پاکستان کے عوام کی اکثریت کی یہ رائے ہے کہ اگر موجودہ حالات میں نئے انتخابات کرا بھی دیے جائیں تو اس کے باوجود عوام کے مسائل حل نہیں ہو سکیں گے کیونکہ ایک بار پھر وہی لوگ منتخب ہوکر پارلیمنٹ میں پہنچ جائیں گے جو موجودہ مسائل کے ذمہ دار ہیں اور وہ اپنی ضرورت کے تحت سیاسی جماعتیں تبدیل کرتے رہتے ہیں- پاکستان کے دو سو خاندانوں نے پاکستان کی ریاست کو بری طرح جکڑ رکھا ہے پاکستان کا سیاسی اور معاشی نظام ان دو سو خاندانوں کی معاونت اور سرپرستی کرتا ہے - موجودہ نظام میں عوام کا کوئی کردار باقی نہیں رہا بلکہ وہ بالکل بے بس اور لاوارث ہو چکے ہیں- جب تک موجودہ سیاسی جمہوری انتخابی اور معاشی نظام تبدیل نہیں ہو جاتا اس وقت تک عوام کے مسائل حل نہیں ہوسکتے- سٹیٹس کو پر مبنی اس مضبوط اور مستحکم نظام کو تبدیل کرنے کیلئے لازم ہے کہ عوام بیدار باشعور اور منظم ہوں تاکہ عوامی طاقت سے موجودہ نظام کو ختم کرکے ایک ایسا پاکستانی نظام نافذ کیا جا سکے جو منصفانہ اور مساویانہ ہو اور جس میں پاکستان کے تمام شہریوں کو ان کے بنیادی حقوق مل سکیں اور وہ عزت کے ساتھ اپنی زندگی بسر کر سکیں- حکومت نے ایک سو دوائیوں کی قیمتوں میں اضافہ کرکے پہلے ہی مریضوں کا جینا حرام کر دیا ہے اور وہ دوائیوں کے بغیر مر رہے ہیں-مافیاز خود اور ان کے قریبی رشتے دار حکومت کے مختلف عہدوں پر فائز ہیں تو پھر کوئی بھی حکومت ان کے دباؤ سے باہر نہیں نکل سکتی- وزیراعظم عمران خان کی حکومت چونکہ کمزور ہے اسکے پاس اتنی پارلیمانی قوت نہیں ہے کہ وہ عوام کے مفاد میں قانون سازی کر سکے لہذا اسکے راستے میں بے شمار مشکلات ہیں- عمران خان نیک نیتی کے باوجود ناکام نظر آتے ہیں- مصدقہ اطلاعات کے مطابق سی بی آر نے پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سامنے انکشاف کیا کہ ریاست کے 1.856 کھرب روپے واجب الادا ہیں جو مقدمات کی وجہ سے رکے ہوئے ہیں- یہ مقدمات سپریم کورٹ سمیت مختلف صوبائی کورٹس میں زیر التواء ہیںیہ کثیر سرمایہ اگر ریاست کو مل جائے تو ریاست کی معاشی مشکلات ختم ہو سکتی ہیں- پاکستان کے چیف جسٹس محترم گلزار احمد کو اس مسئلہ پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے-