• news

اب فیصلہ کن لڑائی ہوگی، وزیراعظم کو جانا پڑیگا: پی ڈی ایم

کراچی (  قمر خان ‘نیوز رپورٹر+  نوائے وقت رپورٹ) صدر پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمن نے پی ڈی ایم کے جلسہ سے خطاب میں کہا ہے کہ 18 اکتوبر سانحہ کارساز کے شہدا کی یاد دلاتا ہے۔ 18 اکتوبرکے شہدا کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ ہم نے کراچی سے آزادی مارچ کا آغاز کیا تھا۔ کراچی  والوں نے آزادی مارچ کا بھرپور استقبال کیا۔ ہم موجودہ حکومت کو تسلیم نہیں کرتے۔ معیشت کی کشتی ڈوبے تو ریاستیں اپنا وجود کھو دیتی ہیں۔ پی ڈی ایم کا مقصد آزاد جمہوری فضاؤں کو بحال کرنا ہے۔ پی ڈی ایم پاکستان کے تحفظ کی جنگ لڑ رہی ہے۔ ہمیں مجبورکیا جا رہا ہے کہ ہم دھاندلی کے نتیجے میں  قائم حکومت کو تسلیم کر لیں۔ ہمیں ڈرایا دھمکایا گیا‘  لالچ دی گئی‘ ہم ڈرنے والے نہیں۔ اپنے موقف پر قائم  ہیں۔ عزت نفس قربان کرکے زندگی گزارنا نہیں سیکھا۔ ہم ملک میں عزت کے ساتھ  جینا چاہتے ہیں۔ دنیا  بھر میں ریاست کی بقا کا دارو مدار اقتصادی  اور معاشی قوت پر ہوتا ہے۔ نواز حکومت نے سالانہ معاشی  ترقی کا تخمینہ ساڑھے 6 فیصد لگایا تھا۔ جب معیشت تباہ ہوتی ہے تو ملک تباہ ہو جاتا ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ ہم اس حکومت کو تسلیم کر لیں۔ 26  لاکھ نوجوانوں کو بے روزگار کر دیا گیا۔ ایک کروڑ  نوکریوں کا خواب دکھایا گیا۔ 50  لاکھ مکان دینے کی بجائے 50 لاکھ مکان گرا دیئے۔ غریبوں کی  قوت خرید ختم ہو چکی ہے۔ دنیا میں انقلاب دولت مند نہیں غریب لاتے ہیں۔ انقلاب آکر رہے گا۔ ان کو بے گھر کرنا آتا ہے، گھر دینا نہیں آتا۔ ان کو بے روز گار کرنا آتا ہے، روزگار دینا نہیں۔ یقین دلایا گیا کہ مودی آئے گا تو کشمیر کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ مودی آیا توکشمیرکا سودا کر دیا گیا۔ تم کشمیر کے سوداگر ہو‘ تم کشمیر فروش ہو۔ کیا عمران خان نے کشمیرکو تقسیم کرنے کا فارمولہ پیش نہیں کیا تھا؟۔ کشمیری  پاکستانی ہیں۔ کشمیر پاکستان کا ہے۔ وزیراعظم آزادکشمیر پر غداری کے مقدمے سے بھارت خوش ہوا۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ 18 ویں ترمیم پاس کر کے ہم نے کسی حد تک صوبوں کو خود مختاری دی تھی۔ صوبوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا۔ کوئی بھی سندھ کو تقسیم نہیں کر سکتا۔ سندھ اور بلوچستان کے جزائر پر وہاں کے عوام کا حق ہے۔ جزائر پر قبضہ 18 ویں ترمیم اور آئین کے خلاف ہو گا۔ ناکام خارجہ پالیسی نے پاکستان کو تنہائی کی طرف دھکیل دیا ہے۔ ایسی کوئی ترمیم قبول نہیں جس سے عوام کے حقوق میں کمی آئے۔ اگر سندھ کے عوام نہیں چاہتے تو کسی کا باپ سندھ کو تقسیم کرنے کی جرات نہیں کر سکتا۔ ہمیں ہر قیمت پر اس نظام کو تبدیل کرنا ہو گا۔ معاشی ترقی سے ملک مضبوط ہوتے ہیں۔ معاشی ترقی اس وقت ہوتی ہے جب عوام خوشحال ہوں۔ ہم پاکستان کے آئین اور قانون کے ساتھ کھڑے ہیں۔ جعلی حکمرانوں کے رحم و کرم پر پاکستان کو نہیں چھوڑ سکتے۔ ہم نے عوام کو ووٹ کا حق دلانا ہے۔ موجودہ حکومت نے پاکستان کو دنیا میں تنہا کر دیا ہے۔ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات مخدوش ہیں۔ چین نے پاکستان میں سرمایہ کاری‘ بجلی گھر بنانے کیلئے فنڈز دیئے لیکن ترقی کے سفر کو حکومت نے روکا۔ چین بھی آج ہم پر اعتماد کرنے کو  تیار نہیں۔ ایران ہمسایہ ہے لیکن وہ بھی بھارت کے کیمپ میں بیٹھا ہوا ہے۔ آج افغانستان کی  کرنسی پاکستانی روپیہ سے زیادہ مستحکم ہے۔ کرپشن ختم کرنے والوں کے دور میں کرپشن بڑھ گئی ہے۔ یہ انقلاب ایک نئی دنیا کو متعارف کرائے گا۔ یہ جنگ ہم جیت کر رہیں گے۔ اپنا حق حاصل کر کے رہیں گے۔ پاکستان اس صورت میں ترقی کر سکتا ہے جب تمام ادارے اپنے دائرہ کار میں رہیں۔ ملک کو اناڑیوں کے حوالے کرو گے تو ملک کا بیڑا غرق ہو گا۔ موجودہ حکومت کو جانا پڑے گا۔ فوج ہماری آنکھوں کی پلکوں کی حیثیت رکھتی ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کراچی میں جلسہ سے خطاب میں کہا ہے کہ آج پاکستان کیلئے تاریخی دن ہے۔ سانحہ کارساز کے شہداء نے جمہوری جدوجہد کا نیا باب لکھا تھا۔ محترمہ بے نظیر شہید کے حوصلے کی دنیا میں مثال نہیں ملتی۔ محترمہ شہید کی جدوجہد میں ہمیں کامیابی ملتی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں ان شہداء کا نام تحریر کیا جائے گا۔ شہید بی بی کبھی ڈری نہیں عوام کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ سانحہ کارساز کے شہداء کو سلام پیش کرتے ہیں۔ محترمہ شہید اپنی ذات میں بے نظیر تھیں۔ کبھی خوفزدہ نہیں ہوئیں۔ شہید بی بی نے کہا تھا میں عوام میں رہوں گی مجھے دھماکوں سے نہیں ڈرایا جا سکتا۔ ہم پر شہدائے جمہوریت کا قرض ہے اور وہ قرض ہم نے ادا کرنا ہے۔ شہید بی بی اور پی پی نے ملک کی بقاء اور جمہوریت کیلئے اپنا خون دیا ہے۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ آج ہم تاریخ کے اہم موڑ پر کھڑے ہیں ہم نے عوام کی حکمرانی اور حقیقی جمہوریت کی جنگ لڑنی ہے ہماری لڑائی اقتدار کیلئے نہیں ہے حکومت نے عوام کو حقوق دینے کا وعدہ توڑ دیا ہے آج غریب مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں اور ان کے چولہے ٹھنڈے ہو رہے ہیں۔ سڑکوں پر ہماری بہنوں کی عزتیں پامال کی جا رہی ہیں۔ ہمیں آج جمہوریت کے فلسفے پر بات کرنی ہے۔ تمام آزادیوں کا ضامن جمہوری نظام ہے۔ حکمران اپنے فرض ادا کرنے سے منکر ہیں۔ حکومت کی ترجیح من پسند لوگوں کو بچانا ہے۔ وزیراعظم کو مہنگائی کی خبر ٹی وی سے ملتی ہے۔ وزیراعظم کو نہیں پتہ آزاد کشمیر کے وزیراعظم کے خلاف غداری کے پرچے ہوئے ہیں۔ اس دور میں عوام نے تاریخی مہنگائی‘ غربت اور بیروزگاری دیکھی ہے۔ ڈمی وزیراعلیٰ پنجاب لگا کر عوام کے ساتھ مذاق کیا جا رہا ہے۔ سندھ کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پنجاب کے ساتھ مذاق کیا جا رہا ہے۔ سندھ کو این ایف سی ایوارڈ کا 300 ارب نہیں دیا گیا۔ کراچی کو سندھ سے الگ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کے الیکٹرک عوام کا خون چوس رہا ہے۔ مخالفین کیلئے نیب کا اندھا قانون اور وزیراعظم کے ساتھیوں کیلئے عوام کے پیسے ہیں۔ کراچی سے میرپور خاص‘ بدین تک سیلاب متاثرین آج تک در بدر ہیں۔ سیلاب متاثرین کی مدد تو دور کی بات وزیراعظم نے پوچھا تک نہیں۔ قدرتی آفات کے دوران متاثرین کی مدد کرنا وفاق کی ذمے داری ہے۔ سندھ میں جہاں سے گیس نکل رہی ہے وہاں نہیں مل رہی۔ کراچی کیلئے ایک ہزار ارب روپے کا پیکج دھوکہ نکلا۔ یوٹرن نکلا۔ عمران خان نے صرف کراچی کو دھوکہ دیا ہے۔ کراچی پیکج میں آپ کیلئے ایک روپیہ نہیں۔ وفاق بلوچستان اور سندھ کے جزائر پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ وفاق کو اپنا آرڈیننس واپس لینا پڑے گا۔ سندھ کے جزائر کسی کے باپ کی ملیکت نہیں ہم جزائر پر قبضہ نہیں کرنے دیں گے۔ حکومت کو بدھ تک جزائر سے متعلق آرڈیننس واپس لینے کا الٹی میٹم دے دیا ہے۔ کشمیر کا سفیر بننے والا کلبھوشن کا وکیل بن گیا۔ نااہل اور نالائق ٹولے کو جانا پڑے گا۔ ہسپتالوں میں ادوبات نہیں تعلیم کا بجٹ کم کیا جا رہا ہے۔ وزیراعظم کہتا ہے میں جمہوریت ہوں اس سے زیادہ آمرانہ سوچ کیا ہوتی ہے کہ سلیکٹڈ وزیراعظم پارلیمان اور آئین کو نہیں مانتے۔ پاکستان کے عوام جعلی حکمرانوں کا غرور مٹی میں ملا دیں گے۔ ان کو عوام کے آنسو نظر نہیں آتے اور یہ شخص جمہوریت ہونے کا دعویٰ کرتا ہے کسی ایک شخص کی حکومت جمہوریت نہیں ہو سکتی۔ اس شخص کے غرور کو عوام مٹی میں ملا دے گی۔ یہ لڑائی نئی نہیں ہے لیکن اب یہ فیصلہ کن ہو گی اس نالائق‘ نااہل وزیراعظم کو جانا پڑے گا ہم نے اس ملک کی جمہوریت کا دفاع اپنے خون سے کیا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر شہید نے اپنا خون دیا لیکن عوام کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ اس وزیراعظم کی حکومت کی بنیاد ہی نہیں عوام کی طاقت کے سامنے زور اور جبر والے نہیں ٹھہر سکتے۔ بھوکے بچے کے رونے پر کیسے پابندی لگاؤ گے؟ اگر ہمیں جیلوں میں ڈالا جائے گا تو ہماری حق کی صدائیں جیلوں کی دیواریں ہلا دیں گی۔ پی پی نے عوام کا ساتھ چھوڑا نہ کبھی چھوڑے گی۔ آئین پر حملے ہو رہے ہیں ہمیں متحد ہو کر انہیں شکست دینی ہے۔ ٹک ٹاک پر پابندی لگا سکتے ہو عوام کی سوچ پر کیسے پابندی لگاؤ گئے؟ موجودہ حکومت کو جانا پڑے گا۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ ہمیں حقیقی جمہوریت چاہئے ہمیں حقیقی جمہوریت دو۔ یاد رکھنا یہ عوام خاموش نہیں بیٹھے گی۔ ان کے درو دیوار عوام سے نعروں سے لرز اٹھیں گے۔ وزیراعظم کو جانا پڑے گا۔ یہ تحریک بھوک‘ ناانصافی  اور ظلم کے خلاف ہے۔ ہم بھی عوام کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔ بے نظیر بھٹو نے میثاق جمہوریت کی بنیاد رکھی اور اس  کیلئے جان بھی دی۔ ہم نے جمہوریت بحال کرائی اور 1973ء کے آئین کو  بحال کرایا۔ آج بھی ان ہی لوگوں سے مقابلہ ہے۔ ہمیں یہ لڑائی پارلیمنٹ اور سڑکوں پر ہر جگہ لڑنی  ہے۔ اس سلیکٹڈ  حکومت کی بنیاد ہی نہیں یہ کھوکھلا ڈھانچہ ہے۔ کیا ہم دھمکیوں سے ڈر جائیں گے۔ نیب کی دھمکی‘ قید کی دھمکی ہم دھماکوں سے نہیں ڈرے۔ اس سلیکٹڈ سے ڈر جائیں گے؟  آج پوری قیادت ایک پیج پر ہے۔ ان سلیکٹڈ کو ہمارے پیج پر آنا پڑے گا۔ ہمیں جمہوریت چاہئے جہاں حکومت عوام کی مرضی سے بنتی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز شریف نے وزیراعظم کی تقریر کا جواب دیتے ہوئے ان پر طنز کیا ہے کہ بڑوں کی لڑائی میں بچوں کا کوئی کام نہیں ہے۔ مریم نواز شریف کا کراچی میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ایک شخص کل چیخ چیخ کر اپنی شکست اور ناکامی کا ماتم کر رہا تھا۔ ابھی تو ایک ہی جلسہ ہوا اور وہ گھبرانا شروع ہو گئے۔ مریم نواز شریف کا کہنا تھا کہ تقریر کے ایک ایک لفظ سے، آپ کی حرکات وسکنات سے آپ کا خوف جھلک رہا تھا۔ یہ عوام کی طاقت کا خوف ہے جو ٹیلی وژن کی سکرین پر تمام قوم نے دیکھا۔ ایک ہی جلسے سے اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھے۔ ہم جانتے ہیں آپ دباؤ اور پریشر میں ہیں۔ خدارا وزیراعظم کی کرسی کی ہی کوئی لاج رکھ لو۔ ان کا کہنا تھا کہ پریشر کو کیسے ہینڈل کرنا ہے؟ یہ کام نواز شریف سے ہی سیکھ لو۔ تم 126 دن دھرنے میں بیٹھے رہے لیکن نواز شریف نے ایک دن پریشر نہیں لیا تھا۔ نواز شریف نے دھرنے کے دوران تمہارا نام تک نہیں لیا تھا۔ تم کس خوشی میں اچھل رہے ہو، تمہارا نام تو کسی نے نہیں لیا، تم ایک تنخواہ دار ملازم ہو۔ یہ بڑوں کی لڑائی ہے۔ لیگی رہنما نے کہا کہ میں عمران خان کا نہ نام لینا پسند کرتی ہوں، نہ اسے وزیراعظم مانتی ہوں اور نہ ان کی جعلی حکومت کو تسلیم کرتی ہوں۔ گزشتہ روز انہوں نے شاید میرا مذاق اڑانے کیلئے مجھے کہا کہ میں ان کیلئے بچوں کی طرح ہوں لیکن نانی بن چکی ہوں۔ انہوں نے کہا کہ نانی ماں کی بھی ماں ہوتی ہے لیکن آپ نے اس خوبصورت رشتے کی بھی تحضیک کی۔ میں عمران خان کے  الزام کا جواب دینا بھی توہین سمجھتی ہوں۔ مجھے کہا کہ بچی ہے لیکن نانی بن چکی ہے۔ میں شکر ادا کرتی ہوں کہ میں ایک نہیں بلکہ دو بچوں کی نانی ہوں۔ یہ رشتے ان کو ملتے ہیں جو رشتے نبھانا اور رشتوں کا احترام جانتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نواز شریف اورکلثوم نوازکی بیٹی ہوں۔ مولانا فضل الرحمان اور آصف زرداری مجھے بیٹی سمجھتے ہیں۔ بلاول بھٹو مجھے بڑی بہن کی طرح عزت دیتا ہے۔ ہم پاکستانی عوام کا مقدمہ لڑنے آئے ہیں۔ جب الیکشن آئے گا تو ہم ایک دوسرے کے حریف بھی ہونگے۔ مریم نواز نے کہا کہ کراچی بہت سال  کے بعد آمد ہوئی۔ مجھے محترمہ بے نظیر بھٹو  شہید کی یاد آ گئی۔ مجھ سے جب وہ ملیں تو انہوں نے ایک ماں کی طرح سلوک کیا۔ ان سے یہ ملاقات 3 گھنٹوں پر محیط تھی۔ ابھی ایک جلسہ ہوا ہے اور وہ گھبرانا شروع ہو گئے۔ ایک ہی جلسہ میں دماغی توازن  اور ہوش و حواس بھی کھو بیٹھے ہو۔ آپ کی چیخیں نکال دیں‘  ہم جانتے ہیں آپ دباؤ میں ہیں۔ لیکن جب آپ  یہ نہیں جانتے کہ دباؤ میں گریس کس طرح دکھائی جاتی ہے۔ عمران خان کے چہرے سے خوف ٹپک رہا تھا۔  آپ نے دھرنا دیا۔ نوازشریف نے گھبرا کر الٹی سیدھی باتیں نہیں کیں۔ ہم  پاکستان کے عوام کا مقدمہ لڑنے آئے ہیں۔ ہم انتخابی میدان میں لڑیں گے۔ لیکن آپس میں نہیں لڑیں گے۔ بلاول  آؤ وعدہ کریں، مخالفت  میں اتنا آگے نہیں جائیں گے۔ ہم ایک دوسرے کی عزت کریں گے۔ انتخابی میدان میں لڑیں گے۔ لیکن ایک دوسرے کی عزت کریں گے۔ آپس میں نہیں لڑیں گے۔ بتاؤ عوام کو، غریب عوام سے روٹی کیوں چھینی‘ روزگار کیوں چھینا‘ دوائیں کیوں  چھینی‘ غریب کا درد اس کو کیسے ہوگا جس کا اپنا پیٹ بھرا ہو۔ نوازشریف  کی تقریر  ٹی وی  پر تو چلی نہیں‘ کیا  تم چھپ چھپ کر سن رہے تھے۔ اتنا ہی گھبرا گئے ہو کہ نوازشریف  کی تقریر ٹی وی پر نہ چلے، تو تمہیں اس پر تبصرہ کرنے کا بھی حق نہیں۔ ذرا بتاؤ کتنے  گھر بنائے؟  50 لاکھ گھر بنانے کا وعدہ تھا۔ سچ ان کے حلق میں اٹک جاتا ہے۔ جھوٹ بڑی روانی سے بولتے ہیں۔ کون نہیں جانتا  نیب عمران کے حکم پر چلتی ہے۔  نہ صرف نیب بلکہ ایف آئی اے اور ایف بی آر سب پر قبضہ جما کر بیٹھے ہو۔  اگر نواز شریف نے اتنی غلط باتیں کی تھیں تو ان کی تقریر پر پابندی  کیوں لگائی۔ تمہارا کارنامہ بی آر ٹی ہے۔ تمہارا کارنامہ  بدامنی‘  کمر توڑ مہنگائی‘ صنعتوں  کو تباہ کرنا‘ کاروباروں کو تباہ کرنا‘ سقوط کشمیر‘ کشمیریوں کا مقدمہ  ہار جانا‘ پاکستان کو دنیا میں تنہا کرنا تمہارا کارنامہ  ہے۔  دو سال میں ادویات کی قیمتوں میں 500  فیصد اضافہ ہوا۔ آپ نے کون سا کام کیا۔ جہازوں کا خرچہ کہاں سے آتا ہے۔ معیشت پر خودکش حملہ کرنا آپ کا کام ہے۔ یہ کہتے ہو  کہ ہم مودی کی زبان بول رہے ہیں۔ مودی سے ملاقات کیلئے ترستے تم ہو۔ فارن فنڈنگ کیس میں آپ کی چوری پکڑی گئی۔ جب جواب مانگا جاتا ہے تو کہتے ہیں غدار ہیں۔ آپ  نے ایک کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ کیا تھا۔ کتنی نوکریاں ملیں۔ نریندر مودی کی کامیابی کی دعائیں آپ مانگتے رہے۔ نوازشریف کہتا ہے سیاست میں دخل اندازی نہ کرو تو کیا وہ غلط کہتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ منتخب کرنے یا گھر بھیجنے  کا اختیار عوام کو ہے تو کیا وہ غلط کہتا ہے۔ وہ کہتا ہے عوامی مینڈیٹ کی عزت کرو تو کیا وہ غلط کہتا ہے۔  یہ پاکستان مسلم لیگ ہے۔  اس پر پابندی کا سوچنا بھی نہیں۔ یہ تحریک انصاف نہیں جس پر پابندی لگاؤگے  تو کوئی بولے گا نہیں۔ پھر یہ مشرف کی بنائی مسلم لیگ ق نہیں جس پر پابندی لگاؤ گے تو کوئی کچھ نہیں کہے گا۔ ہم بھی تمہارے پیچھے آئیں گے کہ چار سال سے فارن فنڈنگ کا فیصلہ کیوں نہیں ہوا۔ ہم تمہارا پیچھا نہیں چھوڑیں گے۔ تم نے  کہا اے پی سی نہیں ہوگی‘ ہوگئی۔  تم نہ کہا فیصلے نہیں ہونگے‘  ہوگئے۔ تم نے کہا تحریک کامیاب نہیں ہوگی، یہ بھی ہو جائے گی۔ یہ تحریک تب تک چلے گی جب تک پاکستان کے آئین اور قانون کا بول بالا نہیں ہوگا۔ تب تک چلے گی جب تک غریب کو روٹی نہیں ملے گی‘  عورتوں کو تحفظ نہیں ملے گا۔ 
جو  بزدل ہیں وہ ہٹ جائیں
 جو شیر ہیں وہ ڈٹ جائیں۔
 جمعیت اہلحدیث کے رہنما علامہ ساجد میر نے اپنے خطاب میں کہا کہ  جمہوریت  کے دشمنوں اور اس ملک میں جمہوریت نہ چلنے دینے والوں سے سوال کرتے ہیں کہ کیا کارساز سانحے میں کثیر تعداد  میں شہدا کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد کیا کراچی  اور پورے پاکستان کے لوگوں کی جمہوریت سے محبت ختم ہوئی ہے، نہیں ہوئی۔ پی ڈی ایم حکومت کی چینی‘ آٹا‘ پٹرول‘ جمہوریت اور ووٹ چوری کے خلاف اور اس کو روکنے کے لئے میدان میں آئی ہے اور عوام کی مدد سے اپنے مقصد میں کامیابی ہوں گے۔ جمعیت علمائے  پاکستان (نورانی) کے رہنما شاہ اویس نورانی  نے اپنے خطاب میں کہا کہ کراچی کا مینڈیٹ  چوری کیا گیا اور شہری مینڈیٹ  چوری کرنے والوں کو معاف نہیں کریں گے۔ لوگوں کو جتوایا گیا وہ  تو جا کر سو گئے تھے  لیکن جگا کر بتایا گیا کہ  پپو اٹھ جاؤ تم جیت گئے ہو۔  محسن داوڑ نے جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ  ریاست کو شہریوں کو احساس دلانا ہوگا کہ شہری غلام نہیں،  اگر ایسا نہیں ہوا تو یہ  کمپنی نہیں چلے گی۔ نیشنل پارٹی کے رہنما سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک نے پی ڈی ایم کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ  شہدا کارساز اور دنیا کے تمام نظریاتی جدوجہد کے شہدا کو سلام پیش کرتا ہوں۔ میر حاصل خان کی جدوجہد کی بنیاد ایک وفاق  کیلئے تھی۔ کثیر قومی وحدت کی حیثیت کو ماننے کا مطالبہ کرتے ہیں۔  یہ پرانی سازش ہے کہ سندھ کو تقسیم کیا جائے۔  سازش کے تحت سندھ  اور بلوچستان کی ساحلی پٹی کو الگ کرنا چاہتے ہیں، یہ ہم نہیں ہونے دیں گے۔ یہ کام مشرف اور ضیاء الحق بھی کرنا چاہتے تھے مگر ہم نے انکو یہ کرنے نہیں دیا۔ ہم ایسی تحریک چلائیں گے کہ ایوب خان کے خلاف تحریک یاد آ جائے گی۔ اے این پی کے رہنما امیر حیدر ہوتی  کا خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ فارن فنڈنگ  کیس آئے گا تو تمہاری پوری ٹیم کو این آر او کی ضرورت پڑے گی۔ ہمارا مقصد سلیکٹ سے نجات ہی نہیں نیا وفاق، آئی ایم ایف سے نجات، لوگوں کو روزگار اور معیشت کو مضبوط کرنا ہے۔ ایک نیا این ایف سی ایوارڈ اور صوبوں کے حقوق اور پارلیمان کی مضبوطی، صاف شفاق انتخابات چاہئے۔ محمود خان اچکزئی نے پی ڈی ایم جلسے سے خطاب میں کہا کہ کراچی سندھ کا کیپٹل ہے اور رہے گا۔ کراچی کو اگر معاشی مرکز بنائے رکھنا ہے تو عوام کا خیال رکھنا پڑے گا۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اختر مینگل نے اپنے خطاب میں کہا کہ 25 اکتوبر کو کوئٹہ میں تمام قائدین کو خوش آمدید کہوں گا۔ ہم 70 سال سے غدار ہیں۔ کراچی کے بعد کوئٹہ‘ ملتان کا جلسہ ہو گا تو کون کون غدار قرار دیئے جائیں گے۔ کیا یہ ہے جمہوریت‘ اپنے حقوق کی جدوجہد کرنے والوں پر غداری کا الزام لگتا ہے۔ سندھ اور بلوچستان کے جزیروں پر قبضہ کیا جا رہا ہے۔ بلوچستان کے وسائل اور جزائر پر کسی کو قبضہ نہیں کرنے دیں گے۔ قبل ازیں کراچی پہنچنے پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے  مریم نواز شریف نے  ہمارا بیانیہ اصولوں اور آئین کی حکمرانی کیلئے ہے۔ کراچی کے عوام نے جو عزت‘ محبت اور شفقت دی ساری زندگی کراچی کے عوام سے جڑ گئی ہوں۔ حکومت ہل چکی ہے لوگوں کو وہ کہتے ہیں گھبرانا نہیں۔ حکومتیں عوام کی مرضی سے آنی اور جانی چاہئیں۔ حکومت کی نالائقی اور نااہلی کی وجہ سے ہر طبقہ متاثر ہے۔ عوام آگے نکل گئے۔ اپوزیشن تاخیر سے آئی ہم عوام کی ترجمانی صحیح طریقے سے نہیں کر سکے۔ عمران خان نے ہارے ہوئے شخص کی تقریر کی۔ مریم نواز نے کہا کہ عمران خان کی تقریر ایک ہارے ہوئے شخص کی تقریر تھی۔ وزیراعظم دھمکیاں نہ دیں پہلے بھی جیلوں میں صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں اس لئے ہمیں گرفتاریوں اور جیلوں سے نہ ڈرایا جائے بلکہ ہمارا خوف تو ختم ہو گیا ہے۔ مریم نواز نے کہا کہ عمران خان کو بہت غصہ ہے کیونکہ وہ ایک ہارا ہوا شخص ہے۔ نواز شریف نے کہا یہ آپ کا کھیل نہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو کچھ نظر نہیں آ رہا لیکن آئندہ چند روز میں نظر آ جائے گا۔ پی ڈی ایم کی تحریک چل پڑی ہے اور نتائج کا حصول زیادہ دور نہیں۔ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے  میڈیا  سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 18 اکتوبر 2007 ء کو کارساز دھماکے میں شہید ہونے والے کارکنوں کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ کارکنوں نے دہشت گردی‘ جھوٹے مقدمات اور گرفتاریوں کا سامنا کر کے قربانیاں دی ہیں۔ وزیراعظم کی دھمکیوں کے باوجود جدوجہد جاری ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم جمہوریت پسند پارٹیوں کا سیاسی اتحاد ہے۔ پی ڈی ایم جمہوریت‘ معیشت اور خارجہ پالیسی کو درپیش تمام برائیوں سے نجات کے لئے ہے۔ پی ڈی ایم اور جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمنٰ نے جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ حکومت کو گھر بھجوا کر رہیں گے۔ مہنگائی اور بیروزگاری نے لوگوں کا جینا محال کر دیا ہے۔ قوم حکومت سے حساب لے گی۔ عمران خان کی رخصتی کے دن قریب ہیں۔ عوام کو جلد حکومت سے چھٹکارا مل جائے گا۔

ای پیپر-دی نیشن