نواز کا مسئلہ اداروں سے ہے، یہودوہنود کے ایجنٹ بد امنی چاہتے، بھارتی بیانیہ نہیں چلے گا: وفاقی وزراء
کراچی‘ اسلام آباد‘ ملتان (نیوز رپورٹر+ سپیشل رپورٹر) وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے سابق وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ آپ سزا یافتہ مجرم ہیں۔ آپ سوالات پوچھنے والے ہوتے کون ہیں؟۔ کراچی میں وفاقی وزیر بحری امور علی زیدی کے ہمراہ پریس کانفرنس میں اسد عمر نے اپوزیشن کے 11 جماعتی اتحاد کو کراچی میں خوش آمدید کہا۔ 2018ء کے انتخابات میں کراچی کے عوام نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو ووٹ دیا۔ ہم شہر کی بڑی پارٹی ہیں۔ وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ نواز شریف ملک سے بھاگ کر لندن میں بیٹھ گئے ہیں۔ ان کا مسئلہ کسی فرد کے ساتھ نہیں، اداروں کے ساتھ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی تقاریر سول بالادستی اور جمہوریت کے لیے نہیں اپنی کرپشن بچانے کے لیے ہیں۔ اسد عمر نے اس دوران نوازشریف سے استفسار کیا کہ ’میاں صاحب بتائیں منتخب وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف کالا کوٹ پہن کر کون عدالت گیا تھا؟۔ سپریم کورٹ پر حملہ کس نے کروایا تھا؟۔ انہوں نے مزید پوچھا کہ میاں صاحب آپ بھارت پر تنقید کیوں نہیں کرتے؟۔ میاں صاحب آپ دلیر ہیں تو آپ کے منہ سے کلبھوشن کا نام کیوں نہیں نکلتا؟۔ وفاقی وزیر نے یہ بھی کہا کہ میاں صاحب یہ بھارت کا بیانیہ نہیں بکے گا۔ آپ کے سوال کرنے کا وقت گزر گیا۔ اب آپ کے جواب دینے کا وقت آ گیا ہے۔ آپ کی دھمکیاں اب آپ کے کام نہیں آئیں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف صاحب آپ اپنے ایلچی ملاقاتوں کے لیے کیوں بھیجتے تھے؟۔ آپ کے بھائی اور ن لیگ کے دیگر رہنما این آر او کیوں مانگتے رہے ہیں؟۔ میاں صاحب، جب آپ کو ہر جگہ سے ناکامی ہوئی تب آپ کو جمہوریت یاد آ گئی۔ اسد عمر نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ نانی بڑے احترام کا رشتہ ہے۔ کیا مریم نواز نانی نہیں ہیں۔ کیا وزیراعظم عمران خان نے کوئی غلط بات کی ہے؟۔ انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین سے متعلق کہا کہ بلاول بھٹو زرداری نے وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ کے لیے جو زبان استعمال کی، وہ یاد رکھیں سب کے گھر کے افراد ہوتے ہیں۔ نواز شریف کی تمام سیاست منافقت پر مبنی رہی ہے اور آج بھی منافقت کر رہے ہیں۔ یہ سیاسی بھیک کی تحریک ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے کئی حواری کہتے ہیں انہوں نے افراد پر تنقید کی ہے۔ اداروں کے ساتھ کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن میں ثابت کروں گا کہ ان کا مسئلہ کسی فرد سے نہیں ہے بلکہ اداروں کے ساتھ ہے۔ نواز شریف کی سیاست اداروں سے ٹکراؤ کی سیاست رہی ہے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ ۔نواز شریف ہوتے کون ہیں سوال پوچھنے والے؟ آپ وہ ہیں جس کو پاکستان کی سب سے بڑی عدالت نے جھوٹا اور امانت میں خیانت کرنے والا ثابت کرکے وزارت عظمیٰ سے باہر پھینکا تھا اور آپ سزا یافتہ قیدی ہیں جو ملک سے بھاگ کر لندن میں بیٹھے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سوالات ہم کریں گے جس کی فہرست طویل ہے، جب پنجاب میں وزارت لینے کے لیے جنرل جیلانی اور جنرل ضیاء الحق کی گود میں بیٹھ کر پنجاب کے وزیراعلیٰ بن رہے تھے تو اس وقت جمہوریت یاد نہیں آ رہی تھی۔ نواز شریف کو مخاطب کرکے ان کا کہنا تھا کہ آپ پنجاب میں مجھے کیوں نکالا کے نعرے لگا رہے جو اسی آرمی چیف کے خلاف تھے جس کو آپ نے لگایا تھا اور پچھلے سال اسی جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے اپنے پارٹی کے اراکین سے کہہ کر ووٹ دلوایا۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی کا کہنا تھا کہ اگر جنرل قمر جاوید باجوہ نے اتنے ظلم کیے تھے جس کو آپ لندن میں بیٹھ کر گوجرانوالہ کے عوام کے سامنے بیان کررہے تھے تو ووٹ کیوں ڈالا۔ ان کا کہنا تھا کہ میاں صاحب دو مہینے پہلے تک آپ کی پارٹی کے لوگ این آر او مانگ رہے تھے۔ مجھے معلوم ہے کیونکہ میں ان ملاقاتوں میں موجود ہوتا تھا۔ آپ کے بھائی اور دیگر رہنما وہاں کیوں بیٹھتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ کیا ہمیں فوج سے بات کرنے سے آئین میں کوئی چیز روکتی ہے۔ آپ کے کارندے آپ اور اپنے لیے این آر او لینے آتے تھے لیکن آپ کی بلیک میلنگ ناکام ہوئی اور ایف اے ٹی ایف کا قانون پاس ہوگیا۔ اسد عمر کا کہنا تھا کہ آپ نے اسی آرمی چیف کے پاس اپنا ایلچی بھیجا جس نے آپ کے بقول جمہوریت کے ساتھ اتنا بڑا ظلم کیا ہے اور یہ پچھلے چند ہفتوں کی بات ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘آپ کے ایلچی ہمیں بتاتے ہیں کہ وہ میرے پرانے دوست ہیں تو میں ان کے پاس لڈو کھیلنے گیا تھا اور اس میں اتنا مزا آیا کہ ایک ہفتے بعد پھر ملنے گیا اور پتا چلا کہ ڈی جی آئی ایس آئی کو بھی لڈو پسند ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپ نے ایلچی اپنے اور اپنی بیٹی کے لیے سیاسی بھیک مانگنے بھیجا تھا۔ پارلیمان نے ملک کو ایف اے ٹی ایف میں بلیک لسٹ سے بچانا تھا تو آپ نے اس قانون کی مخالفت کی۔ اسد عمر کا کہنا تھا کہ ‘سپریم کورٹ کو بھی انہوں نے نشانہ بنایا۔ علی زیدی نے کہا کہ شہید بے نظیر بھٹو بہادر خاتون تھیں۔ نیا عمران خان میدان میں اتر آیا ہے۔ سابق حکومتوں نے بجلی کے مہنگے معاہدے کئے۔ اپوزیشن کرپشن بچاؤ موومنٹ چلا رہی ہے۔ سندھ کے عوام گندا پانی پینے پر مجبور ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری نے ایک دن کسی دفتر میں کام نہیں کیا۔ مریم نواز نے بھی زندگی میں کام نہیں کیا۔ ملک بگاڑنے والے ملک سدھارنے چل پڑے ہیں۔ ان سے پوچھیں تو کہتے ہیں جمہوریت کیخلاف سازش ہے۔ علاوہ ازیں وفاقی وزیر ہوابازی غلام سرور نے اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو میں کہا ہے کہ چند ضمیر فروش یہود و ہنود کے ایجنٹ بن کر بدامنی پھیلانا چاہتے ہیں۔ ہم ان کے ناپاک ارادوں کو خاک میں ملا دیں گے۔ پاکستان کیخلاف بہت بڑی سازش ہو رہی ہے ہم سب نے مل کر اس سازش کو ناکام بنانا ہے۔ وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری نے ٹوئٹر پر ایک بیان میں بے نظیر بھٹو کے قافلے پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری ٹی ٹی پی نے قبول کی تھی لیکن اس جگہ پی ڈی ایم کا جلسہ ہے۔ جس کی قیادت ٹی ٹی پی کے دوست کر رہے ہیں۔ علاوہ ازیں وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ پی ڈی ایم غیروقتی‘ غیر فطری اور غیر نظریاتی اتحاد ہے۔ حکومت نے پی ڈی ایم کو جلسہ کرنے کی کھلی اجازت دی نہ کوئی پابندی لگائی اور نہ ہی کوئی گرفتاری ہوئی۔ یہ الگ بات ہے گوجرانوالہ کے عوام نے پی ڈی ایم کو مسترد کیا اور مولانا فضل الرحمن نے جلسہ میں عوام کی بجائے کرسیوں سے خطاب کیا۔11 رکنی ٹیم کے گوجرانوالہ کے جلسے میں افواج پاکستان کے خلاف اپنایا جانے والا ایجنڈا کسی پاکستانی کا نہیں ہوسکتا۔ بلاول مسئلہ کشمیر پر حقائق کو نہیں جانتے پاکستان کا موقف دو ٹوک اور واضح ہے۔ بلاول مودی کے موقف کو توسیع دے رہے ہیں۔ سعودی عرب ہمارے دیرینہ تعلقات بہت بہتر ہیں۔ ملک سے مہنگائی ختم ہونی چاہئے جس کیلئے حکومت اقدامات کر رہی ہے۔ چینی اور آٹے کا جو بحران پیدا کیا گیا ہے اس پر بھی جلد قابو پالیں گے۔ جنوبی پنجاب کا مسئلہ اب کوئی بھی حکومت ریورس نہیں کر سکے گی۔ وفاقی کابینہ کے آئندہ اجلاس میں گندم کی سپورٹ پرائس کا اطلاق متوقع ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ملتان میں رضاہال میں پریس کانفرنس کے دوران کیا۔ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا کہ 11 پارٹیوں کا یہ پہلا جلسہ تھا جس میں لوگوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے جلسے سے اختتام سے قبل ہی اس کی قلعی کھول دی تھی 2014ء میں عمران خان نے اسی جگہ پر جلسہ کیا تھا۔ دونوں جلسوں کو دیکھا جائے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی سامنے آسکتا ہے۔ سی پیک پر قومی اتفاق رائے موجود ہے۔ بلاول ابہام پیدا نہ کریں۔