دسمبر ‘جنوری: حکومت اور اپوزیشن کے درمیان فیصلہ کن سیاسی جنگ کا امکان
اسلام آباد (محمد نواز رضا۔ وقائع نگار خصوصی) پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے گوجرانوالہ اور کراچی کے جلسوں کے بعد قومی سیاسی منظر پر تیزی سے ایسے واقعات ہو رہے ہیں جو ملک کو غیر یقینی صورت حال سے دوچارکر سکتے ہیں۔ کراچی میں جس طرح ڈرامائی انداز میں کیپٹن (ر) محمد صفدر کی گرفتاری عمل میں لائی گئی اس سے سیاسی ماحول میں تلخی و کشیدگی میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی طرف سے کراچی کے واقعہ کی انکوائری کرنے کے حکم اور بلاول بھٹو زرداری سے ٹیلی فون پر بات چیت کے بعد اپوزیشن کے رویہ میں بھی نرمی آگئی ہے۔ بدھ کو اسلام آباد میں پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کا ایک غیر رسمی اجلاس ہوا جس کراجی کے واقعہ پر احتجاج کی کال واپس لے لی گئی اور 10روز تک انکوائری کا انتظارکرنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن دوسری طرف ایک دن کے وقفہ کے بعد حکومت نے اپوزیشن پر تابڑ توڑ حملے کرنے شروع کر دئیے ہیں۔ وزیر اعظم نے کراچی کے واقعہ پر مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے لیکن ان کی ٹیم نے اپوزیشن کے خلاف طبل جنگ بجا دیا ہے اور آنے والے دنوں میں اپوزیشن کی تحریک کا مقابلہ کرنے کا عندہ دے دیا ہے۔ ملکی سیاست میں دسمبر2020اورجنوری2021کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ اس دو ماہ میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ’’فیصلہ کن‘‘ سیاسی جنگ کا امکان ہے۔ نواز شریف کے گوجرانوالہ کے جلسہ میں خطاب نے بھی پی ڈی ایم میں مسائل پیدا کر دئیے ہیں۔ اگرچہ پی ڈی ایم کی تمام جماعتیں میاں نواز شریف کے بیانیہ کی تائید کر رہی ہیں لیکن اپنی نجی محفلوں میں اداروں سے تصادم سے گریز کی پالیسی اختیار کرنے کا دبی دبی زبان میں کر رہے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری کے اسٹیبلشمنٹ سے رابطوں کا بھی پی ڈی ایم کی تحریک پر اثر پڑ سکتا ہے۔ پی ڈی ایم میں شامل کچھ جماعتیں نواز شریف کے بیانیہ کا بوجھ اٹھانے کی متحمل نہیں ہو سکتیں۔ یہی وجہ ہے آصف علی زرداری نے کراچی کے جلسہ میں میاں نواز شریف کی تقریر نہ کرانے کا مشورہ دیا۔ لیکن 25اکتوبر 2020ء کو کوئٹہ کے جلسہ میں محمود خان اچکزئی اور سردار اختر مینگل میاں نواز شریف کی تقریر کرا سکتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے اعلی سطح کے اجلاسوں میں مسلم لیگ (ن) کے خلاف ممکنہ ریفرنس دائر ہونے کے امکانات کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ سیاسی حلقوں میں سوال موضوع گفتگو ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ڈائیلاگ نہ ہونے کی صورت میں جمہوری نظام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ لہذا ملک میں جمہوری نظام کو کسی حادثے کا شکار ہونے سے بچانے کیلئے سرگرم قوتیں متحارب سیاسی قوتوں کو ایک میز پر بٹھا سکتی ہیں ۔