وزیراعلی سندھ کو دھمکی والی بات سفید جھوٹ شبلی فراز، سب ڈرامہ، قابل ضمانت کیس پر گرفتاری کیوں: شہزاد اکبر
اسلام آ باد ( وقائع نگارخصوصی) وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز نے کہا ہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ نے وفاقی وزیر پر الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے دھمکی دی کہ اگر ایف آئی آر درج نہ کی تو ان کی حکومت نہیں رہے گی، یہ سفید جھوٹ ہے اس کی پرزور مذمت اور سختی سے تردید کرتا ہوں۔ اپنے جلسوں کا ردعمل دیکھ کر یہ ذہنی طور پر اس قدر گھبراہٹ کا شکار ہو گئے ہیں اور انہوں نے ہرقسم کا جھوٹ فریب اپنا لیا ہے جس کی وجہ سے ان کی پہلی کوشش یہی ہے کہ وہ سندھ حکومت کی نااہلی، کرپشن کو چھپا سکیں اور اپنی سیاسی منافقت کو ایک اچھی شکل دے سکیں۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ قائد اعظم کے مزار پر جو ہلڑ بازی، غیرقانونی واقعہ ہوا جو صفدر اعوان اور مریم اعوان نے رچایا تھا، جس سے پاکستان کی حقیقت کے خالق قائد اعظم کے مزار پر طوفان بدتمیزی برپا کیا گیا جو قوانین اور اخلاقیات کے خلاف تھا۔ اس جرم کو چھپانے کے لئے انہوں نے ایک نیا ناٹک رچایا اور ویڈیو فوٹیج میں صفدر اعوان پولیس کی گاڑی میں آرام سے بیٹھ رہے ہیں۔ انہوں نے ایک دو نعرے بھی بلند کئے جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ کوئی زبردستی ہوئی اور نہ ہی کوئی کھینچا تانی ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ اگر کھینچا تانی ہوئی بھی تو اس کا ذمے دار کون ہے۔ انہوں نے یہ بات جمعرات کو پی آئی ڈی میں وزیر اعظم کے مشیر برائے احتساب و داخلہ شہزاد اکبر کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ سندھ میں کس کی حکومت ہے، سندھ میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے؟۔ آپ نے تو 18ویں ترمیم کی وجہ سے ایک علیحدہ جزیرہ اور ملک بنا لیا تھا کہ جہاں آپ کی لوٹ مار اور سندھ کے عوام کو پسماندہ رکھنا اور سندھ کے اثاثوں کو لوٹنا آپ کا شیوہ تھا، اومنی اکاؤنٹس اس کی ایک جھلک ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات نے کہا کہ انہوں نے ساتھ میں یہ جھوٹ بولا کہ بلاول نے وزیراعظم سے رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے چیف آف آرمی سٹاف کو فون کیا، دیکھیں آپ اپنی سیاست، اپنے جھوٹ کے لئے ایسے ڈرامے رچا رہے ہیں جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے، آپ جھوٹ پر جھوٹ بولتے ہیں اور آپ کی کسی بات میں نہ تو کوئی وزن ہوتا اور آپ ہمیشہ متضاد باتیں کرتے ہیں۔ آپ نے خود کو جمہوریت کا چیمپیئن بھی بنانا ہے۔ سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ کرونا سمیت تمام مشکلات کے باوجود معیشت اپنے پیروں پر کھڑی ہو گئی ہے اور یہ بات آپ کو بالکل پسند نہیں آئی، وہ اس لئے کہ ایک ایسی حکومت، جس نے آ کر پرانی پارٹنرشپ توڑی، جو دو خاندانوں کے تسلط کو شکست دے کر عمران خان نے ایک ایسی حکومت کی بنیاد ڈالی جوکاروباری ہے اور نہ ہی اس کے خاندانی تعلقات ہیں۔ انہوں نے مسلم لیگ (ن) یہ سمجھتی ہے کہ چادر اور چار دیواری صرف مریم صفدر ہیں، وہ وقت بھول گئے جب انہوں نے ماڈل ٹاؤن میں نہتی حاملہ خواتین کے منہ پر گولیاں ماریں، وہ بھول گئے ہیں جس طرح سے انہوں نے محترمہ بے نظیر شہید کی تصاویر ہیلی کاپٹر سے پھینکیں، اس وقت چادر اور چار دیواری کا تحفظ کہاں گیا تھا، آپ اس کے خالق ہیں۔ آپ کی مخالفت پاکستان کے عوام اور عمران خان سے ہے۔ آپ کا ناٹک اسی لئے ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اور عمران خان کامیاب ہو گیا تو آپ کی سیاست تو ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گی۔ وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب و داخلہ شہزاد اکبر نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کسی جرم کا سراغ لگانے کا بنیادی اصول ہوتا ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ اس کا فائدہ کس کو ہو رہا ہے اور یہ دیکھا جائے کہ فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کون کر رہا ہے تو واضح ہو جائے گا کہ یہ سارا معاملہ ہے کیا اور یہ سارا کھیل کھیلا کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کہ ہم صبح اٹھے تو پتا چلا کہ رات میں ایف آئی آر بھی درج ہو گئی اور صبح سویرے صفدر اعوان کو گرفتار بھی کر لیا گیا، کیمرے میں یہ بات سامنے آئی کہ سندھ پولیس کی گاڑیوں میں فرنٹ سیٹ پر بیٹھے ہوئے صفدر اعوان تھے جو نعرے لگاتے ہوئے قابل ضمانت جرم میں گرفتار کر کے تھانے لے جائے گئے، اگر یہ کام وفاقی حکومت نے کرنا تھا تو کیا ہم اس میں قابل ضمانت دفعات لگاتے، یہاں سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ ڈرامہ ہو رہا ہے۔ شہزاد اکبر نے کہا کہ بقول آپ کے اگر کسی وفاقی ادارے کی جانب سے ان کو اغوا کر لیا گیا تو کیا سندھ پولیس کے آئی جی اس وقت بھی اغوا تھے، کیا سندھ پولیس نے ٹوئٹر پر جو بیان دیا اور پھر ہٹا کر دوبارہ بیان دیا تو کیا وہ بھی اغوا ہونے کی صورت میں تھی، تو کیا اکاؤنٹ ہیک ہو گیا تھا۔انہوں نے کہا کہ بات یہی نہیں رکتی بلکہ صوبے کے چیف ایگزیکٹو مراد علی پریس کانفرنس کرتے ہیں اور اس پریس کانفرنس سے پہلے صحافیوں سے کہا جاتا ہے کہ اس اغوا کے بارے میں آپ نے سوالات نہیں کرنے تو مراد علی شاہ صاحب آپ کیا چھپانے کی کوشش کر رہے تھے، اس پریس کانفرنس سے لے کر شام تک ایسا کیا ہوا کہ آپ نے نیا کھیل رچانا شروع کردیا۔ بلاول ہاؤس میں ملاقات کے بعد پولیس کی طرف سے چند خطوط آنے لگ گئے کہ ہمارے حوصلے پست ہو گئے ہیں۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ سندھ پولیس اپنے احکامات کہاں سے لیتی ہے۔معاون خصوصی نے چند سوالات کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعلیٰ نام بتائیں کہ انہیں کس وفاقی وزیر نے فون کیا تھا، آپ کا الزام ہے کہ ان کو اغوا کیا گیا،انہوں نے کہا کہ اگر آپ الزام لگا رہے ہیں تو آپ کو آئی جی نے کہا ہو گا، یہ کس قسم کا آئی جی ہے کہ اس نے ایف آئی آر درج نہیں کرائی، اس کی ایف آئی آر درج کیوں نہیں کراتے؟ اگر ایف آئی آر درج کراتے ہیں تو اس میں کسی کو نامزد کریں۔شہزاد اکبر نے کہا کہ آپ نے ایک سیاسی سرکس اور ایک کھیل لگایا ہوا ہے جس میں آپ ملک و قوم کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کا فائدہ دشمن ملک اٹھا رہا ہے۔ یہ کھیل یا تو بلاول زرداری، مریم صفد کے ساتھ کھیل رہا ہے یا یہ کھیل بلاول اور مریم مل کر ملک و قوم کے ساتھ کھیل رہے ہیں، اس کی حقیقت اس سے زائد کچھ نہیں۔ مشیر داخلہ و احتساب شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز مل کر کھیل کھیل رہے ہیں، آئی جی اغوا ہوئے تو اس کا پرچہ بھی سندھ حکومت کو بھی کاٹنا ہے ، پھر (ن) لیگی ٹھگ نے کلبھوشن کا نام لیا ہے۔ پروفیسر نے کہا کہ حکومت بھارتی ایجنٹ کو فائدہ دینی چاہتی ہے، ہم عالمی عدالت کے فیصلے کے مطابق اقدامات کر رہے ہیں۔