کراچی واقعہ: سینٹ میں اپوزیشن کی قرار داد حکومتی اعتراض پر قائمہ کمیٹی کے سپرد
اسلام آباد (نوائے وقت نیوز) سینٹ میں اپوزیشن نے کراچی میں مریم نواز کے ہوٹل کمرے کی پرائیویسی میں مداخلت اور آئی جی سندھ کے مبینہ اغوا کے معاملے کی تحقیقات کے لئے کمیٹی بنانے سے متعلق قرارداد پیش کر دی۔ حکومت کی جانب سے کمیٹی بنانے کی مخالفت کی گئی تاہم چیئرمین سینٹ نے معاملہ تحقیقات کے لئے سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے سپرد کر دیا۔ اپوزیشن ارکان نے کہا کہ ایک آئی جی کو یرغمال کر کے ان سے دستخط کرائے گئے۔ راتوں رات ایف آئی آر زبردستی درج کی گئی۔ یہ بہت بڑا اور حساس معاملہ ہے اسکے دور رس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ وفاقی حکومت نے براہ راست صوبے میں مداخلت کی اور صوبائی حکومت کو اعتماد میں لئے بغیر ایکٹ کیا۔ اس سے صوبائی خودمختاری متاثر ہوئی۔ اگر پارلیمان نے اپنا کردار ادا نہ کیا تو صورتحال بگڑ سکتی ہے۔ وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ سابق وزیر اعظم کے داماد نے مزار قائد کی بے حرمتی کی۔ انہوں نے ایسا رویہ رکھا جس کو چیف منسٹر بھی مان رہے ہیں کہ انہوں نے غلط کیا۔ اپوزیشن والے اس بات کو پیچھے کر کے اپنی سیاست کھیل رہے ہیں ۔ یہ اس واقعے پر سیاست چمکانا چاہتے ہیں۔ دو کمیٹیاں بن گئیں ہیں خوامخواہ سیاسی دبائو ڈالا جا رہا ہے۔ جمعرات کو سینیٹ کا اجلاس چیئرمین سینٹ محمد صادق سنجرانی کی صدارت میں ہوا ، اجلاس کے دوران اپوزیشن لیڈر راجہ ظفرالحق نے کراچی میں مریم نواز کے ہوٹل کمرے کی پرائیویسی میں مداخلت اور آئی جی سندھ کے مبینہ اغوا کے معاملے کی تحقیقات کے لئے کمیٹی بنانے سے متعلق قرارداد پیش کی ۔ تاہم قائد ایوان سینیٹر شہزاد وسیم نے کہا کہ اس مسئلے پرپہلے بھی بات ہو چکی ہے، دو کمیٹیاں تشکیل پا چکی ہے ،انتظار کرنا چاہیئے تاکہ تمام واقعات سامنے آجائیں ، راجہ ظفرالحق نے کہا کہ ہر ادارے کی اپنی ذمہ داری ہے،کمیٹی تشکیل کی جائے، پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے کہاکہ یہ ایوان کا استحقاق ہے اور اسکی ذمہ داری بنتی ہے، ایک آئی جی کو یرغمال کر کے ان سے دستخط کرائے گئے ،ر اتوں رات ایف آئی آر زبردستی درج کی گئی ، سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ یہ بہت بڑا اور حساس معاملہ ہے اسکے دور رس اثرات ہو سکتے ہیں ، سینیٹ کو کردار ادا کرنے دیں ، پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر میاں رضا ربانی نے کہا یہ نہایت سنگین مسئلہ ہے، وفاقی حکومت نے براہ راست صوبے میں مداخلت کی اور صوبائی حکومت کو اعتماد میں لیئے بغیر ایکٹ کیا اس سے صوبائی خودمختاری متاثر ہوئی، پولیس فورس آرمڈ یونیفارم فورس ہے اس نے اپنا احتجاج چھٹی کی درخواست کے ذریعے رجسٹرکیا ، پولیس والے ریاست کے خلاف احتجاج کر رہے تھے، اگر پارلیمان نے اپنا کردار ادا نہ کیا تو صورتحال بگڑ سکتی ہے، ایک منسٹر کے کلپس چل رہے ہیں جس میں انہوں نے آئی جی اور چیف سیکرٹری کو دھمکی دی سینیٹر ررضا ربانی نے کہا کہ پارلیمنٹ کردار ادا کرے ، چیئرمین سینیٹ کمیٹی کی سربراہی کریں، وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا کہ اگر کسی پرکوئی پریشر تھا تو غلط تھا،جو ایکٹ ہے اسکو بھی دیکھا جائے ، قائد ایوان سینیٹر شہزاد وسیم نے کہا کہ قائد اعظم کے مزار کی بے حرمتی ہوئی اس پرکوئی بات نہیں کر رہا ، تمام حقائق انکوائری کی صورت میں سامنے آنے چاہئیں، سینیٹر راجہ ظفر الحق نے کہا کہ یہ معاملہ سنگین ہے، نتیجے پر پہنچے کے لیئے ضروری ہے کمیٹی کو بھیجا جائے، ایوان سے پوچھ لیا جائے، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ افسوس ہوتا ہے کہ سابق وزیر اعظم کے داماد نے مزار کی بے حرمتی کی انہوں نے ایسارویہ رکھا جس کو چیف منسٹر بھی مان رہے ہیں کہ انہوں نے غلط کیا ، اپوزیشن والے اس بات کو پیچھے کر کے اپنی سیاست چمکا رہے ہیں ، مزار کو جلسہ گاہ بنایا،یہ اس واقعے پر سیاست چمکانا چاہتے ہیں دو کمیٹیاں بن گئیں ہیں، سیاسی دبائو ڈالا جا رہا ہے، اس موقع پر چیئرمین سینیٹ نے معاملہ تحقیقات کے لئے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے سپرد کر دیا۔ جمعرات کو سینیٹ کے اجلاس کے دوران قائمہ کمیٹی برائے مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی کے چیئرمین سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری نے تحریک پیش کی کہ اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے بل ’دی پروٹیکس آف دی رائٹس آف ریلیجس مینارٹیز بل 2020‘ پر قائمہ کمیٹی کی رپورٹ پیش کرنے کی معیاد میں 30 یوم کی توسیع کی منظوری دی جائے۔ چیئرمین سینیٹ نے ایوان کی رائے لینے کے بعد کمیٹی کی رپورٹ پیش کرنے کی معیاد میں توسیع کی منظوری دیدی۔چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے قرآن مجید کے نسخوں کا معیار بہتر بنانے اور ری سائیکلنگ کے حوالے سے معاملہ بھی متعلقہ کمیٹی کو بھجوا دیا۔ اجلاس میںمختلف قائمہ کمیٹیوںکے سربراہان کی جانب سے رپورٹس ایوان میں پیشکی گئیں۔ اقلیتوں کو جبری طور پر مذہب تبدیل کرنے کے حوالے سے پارلیمانی کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر انوار الحق کاکڑ نے کمیٹی کی رپورٹ پیش کی۔ جمعرات ہی کو ایوان بالا کے اجلاس کے دوران قائمہ کمیٹی برائے خزانہ، ریونیو و اقتصادی امور کے چیئرمین سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے سینیٹر ذیشان خانزادہ کی جانب سے پیش کی گئی قرارداد پر کمیٹی کی رپورٹ پیش کی۔چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے سندھ میں اقلیتی برادری کی لڑکیوں کو اغواء کے واقعات پر متعلقہ حکام سے جواب طلب کرنے کی ہدایت کی ہے۔ ایوان بالا میں مختلف سیاسی جماعتوں نے کراچی میں پیش آنے والے واقعات پر کمیٹی آف دی ہول کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کر دیا۔، مزار قائد پر پیش آنے والے واقعہ پر بھی بات کی جائے۔ جمعرات کوسینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے سینیٹر مصدق ملک نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 14 چادر اور چار دیواری کے تحفظ کو یقینی بناتا ہے، آئین کا آرٹیکل 15 آزادی نقل و حرکت کی اجازت دیتا ہے، ڈیڑھ ہفتے میں 22 سو مقدمات بنائے گئے ہیں۔ سینیٹر ولید اقبال نے کہا کہ مزار قائد پر پیش آنے والے واقعہ پر غور کرنے کا معاملہ کمیٹی آف دی ہول کو بھجوایا جائے، مزار قائد کے تقدس کے حوالے سے ذوالفقار علی بھٹو نے قانون منظور کیا تھا، خرم دستگیر نے بھی اس واقعہ کی مذمت کی، اس پر وہ خراج تحسین کے مستحق ہیں، کمیٹی آف دی ہول اس واقعہ پر بھی غور کرے۔ سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ مزار قائد پر جو نعرے لگائے گئے یہ کوئی جرم نہیں، مریم نواز کے کمرے کا دروازہ توڑا گیا، جانبدارانہ انکوائری کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا، سینیٹ کی کمیٹی بنائی جائے جو واقعہ کی تحقیقات کرے۔ سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ کیپٹن (ر) صفدر نے کوئی قابل اعتراض نعرے نہیں لگائے، انہیں نا حق جیل میں ڈالا گیا، مریم نواز کے کمرے کا دروازہ توڑ کر انہیں گرفتار کیا گیا، اس طرح کے واقعات نہ دہرائے جائیں۔ آئی جی کے اغواء کے واقعہ کی تحقیقات کا انتظار کیا جائے۔ سینیٹر سسی پلیجو نے کہا کہ پی ڈی ایم کے جلسے کے اثرات کو زائل کرنے کے لئے اقدامات کئے جا رہے ہیں، اتحاد میں دراڑیں ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ کے حقوق کے خلاف آرڈیننس واپس لیا جائے، ورنہ سندھ کے عوام احتجاج کے لئے نکل آئیں گے۔