دشمن نے جنگی ماحول پیدا کر دیا! وسیع تر قومی اتحاد کی ضرورت ہے
آرمی چیف کا اگلے مورچوں کا دورہ‘ گلبدین کا بھی بھارت سے پرانی غلطیاں نہ دہرانے کا تقاضا
چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے لائن آف کنٹرول پر چھمب ایریا میں اگلے مورچوں کا دورہ کیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق اس موقع پر آرمی چیف کو تازہ ترین اپریشنل صورتحال اور بھارتی فوج کی طرف سے جنگ بندی معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جان بوجھ کر کنٹرول لائن کی قریبی آبادیوں پر فائرنگ کی تفصیلات پر بریفنگ دی گئی۔ اس موقع پر افسروں اور جوانوں سے گفتگو کرتے ہوئے آرمی چیف نے انکی مسلسل چوکسی اور شاندار اپریشنل تیاری کی تعریف کی۔ انہوں نے بھارتی فوج کی بلا اشتعال فائرنگ سے متاثر ہونیوالی مقامی آبادی کی تمام تر مدد کرنے پر زور دیا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے انہیں نصیحت کی کہ ثابت قدم رہیں، انتہائی خلوص اور لگن کے ساتھ اپنا فرض ادا کریں۔
پاکستان کیخلاف بھارت کے مذموم عزائم کبھی اخفا میں نہیں رہے۔ اس کیلئے پاکستان ناقابل برداشت اور پاکستان سے وابستہ سب کچھ اس کیلئے تکلیف کا باعث ہے۔ کشمیر ی پاکستان کے ساتھ یکجہتی و یگانگت کا اظہار کرتے ہیں جس سے بھارت کے سینے پر سانپ لوٹنے لگتا ہے۔ پاکستان کشمیر اور کشمیریوں کو اپنا اٹوٹ حصہ سمجھتا ہے‘ اصل اور اصولاً بھی ایسا ہی ہے۔ بھارت نے زور زبردستی جارحیت سے کشمیر پر قبضہ اور کشمیریوں کو غلام بنا رکھا ہے۔ کشمیری بھارت کی غلامی تسلیم کرنے کو ہرگز تیار نہیں۔ وہ آزادی کی خاطر لاکھوں کی تعداد میں قربانیاں دے چکے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ کشمیریوں کی اکثریت پاکستان سے الحاق کی متمنی ہے۔ اقوام متحدہ نے اپنی قراردادوں میں کشمیریوں کو استصواب کا حق دیا ہے۔ بھارت نے شروع میں اس حق کو تسلیم کیا تاہم بعد میں مکر گیا اور ہر گزرتے دن کے ساتھ کشمیر پر تسلط مضبوط تر کرنے کے حربے اور ہتھکنڈے اختیار کرنے لگا۔ آج وہ استصواب کا حق دینے سے صریحاً انکاری اور کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتے ہوئے پاکستان کے کئی حصوں اور آزاد کشمیر پر بھی اپنا حق جتا رہا ہے۔
کشمیری اپنی آزادی کی خاطر جانوں کے نذرانے پیش کررہے ہیں۔ بھارت کی نظر میں پاکستان انکی مدد کررہا ہے۔ وہ کشمیریوں کو دہشت گرد اور پاکستان کو دہشت گردوں کا پشت پناہ قرار دینے کا جھوٹا پراپیگنڈہ کرکے عالمی رائے عامہ کو گمراہ کررہا ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ اخلاقی و سفارتی حد تک کشمیریوں کی مدد ضرور کی مگر مقبوضہ کشمیر میں بھارتی قبضے‘ بربریت اور سفاکیت کیخلاف ہتھیار اٹھانے کیلئے کشمیریوں کی کبھی عملی مدد نہیں کی۔ ایسا کرنا ویسے بھی لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری پر فولادی دیوار اور باڑ کے باعث ممکن نہیں ہے۔
بھارت پاکستان پر مقبوضہ وادی میں مداخلت کے جھوٹے اور بے بنیاد الزام لگا کر ایل او سی پر بلااشتعال کارروائیاں کرتا رہا ہے۔ اسکی گولہ باری اور فائرنگ کی زد میں عام شہری حتیٰ کے گھروں میں کام کاج کرنیوالی خواتین بھی آجاتی ہیں۔ پاک فوج ایسی کارروائیوں کا بھرپور اور منہ توڑ جواب دیتی ہے اور اس خیال کے ساتھ کہ دوسری طرف عام شہری زد میں نہ آئیں۔ بھارت کی طرف سے فائرنگ اور گولہ باری کے نتیجے میں پاک فوج کے افسر اور جوان شہید و زخمی بھی ہوتے ہیں۔ ایل او سی اور ورکنگ بائونڈری کے علاقے پر بھارت کے غیرذمہ دارانہ رویوں اور عالمی قوانین کی دھجیاں اڑانے کے باعث جنگ کے خطرات منڈلا رہے ہیں۔
ایسے میں پاک فوج کا مورال بلند رکھنے کیلئے پاک فوج کی اعلیٰ قیادت کو ان علاقوں کا دورہ کرنا ہوتا ہے۔ آرمی چیف عموماً وہاں جاتے ہیں‘ عیدین اور دیگر قومی ایام پر بھی وہ محاذ پر ہوتے ہیں۔ قوم بھی پاک فوج کے شانہ بشانہ ہے جو صرف جغرافیائی سرحدوں پر ہی نہیں ملک کے اندر بھی دشمن کی سازشوں کو ناکام بنانے کیلئے ہمہ تن عمل پیرا ہے۔ ایسے میں پاک فوج کے بارے میں عوام میں نفرت کے بیج بونے والوں کی بیخ کنی کی ضرورت ہے۔ یہ عناصر ہو سکتا ہے آٹے میں نمک کے برابر ہوں مگر ایک بھی کیوں ہو۔ ان حالات میں جب بھارت ایل او سی پر شرانگیزی میں اضافہ کررہا ہے‘ پاکستان میں دہشت گردی کے پے درپے واقعات ہو رہے ہیں‘ ان میں بلاشبہ بھارت ملوث ہے جس کا اعتراف مودی اور انکے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول یہ کہہ کر خود بھی کرچکے ہیں کہ کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا بدلہ بلوچستان اور گلگت بلتستان میں چکایا جائیگا اور پھر بھارت ہی مغربی بارڈر پر بھی پاکستان کیخلاف افغان انتظامیہ سے مل کر پاکستان کیخلاف سازشوں میں مصروف ہے۔ اس سب کے توڑ کیلئے وسیع تر قومی اتحاد کی ضرورت ہے۔
بھارت کس طرح افغان سرزمین پاکستان میں مداخلت کیلئے استعمال کرتا ہے‘ اسکے ثبوت پاکستان اقوام متحدہ اور امریکہ کے سامنے رکھ چکا ہے مگر ابھی تک کوئی ایکشن اور نوٹس نہیں لیا گیا۔ پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے حزب اسلامی کے سربراہ اور افغانستان کے سابق وزیراعظم گلبدین حکمت یار نے یہ کہہ کر بھارت کے سازشی چہرے سے نقاب اٹھایا ہے کہ بھارت تنازعہ کشمیر افغانستان میں منتقل نہ کرے۔ انہوں نے یہ بھی انتباہ کیا کہ بھارت کشمیر تنازعہ افغانستان سے دور کھے لہٰذا اب عالمی قوتوں بالخصوص امریکہ اور اقوام متحدہ کیلئے ضروری ہو گیا ہے کہ وہ بھارتی کارروائیوں کا فوری نوٹس لے کر اسکے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کریں۔ جب تک بھارت پر اس قسم کی پابندیاں عائد نہیں کی جائیں گی‘ وہ راہ راست پر نہیں آئیگا۔