ایک مربوط علمی تحریک
بغداد کے مدرسہ قادریہ اور عالم اسلام کے دیگر بڑے مدارس اس نتیجے پر پہنچے کہ القدس کی بازیابی اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک اسلامی روح اور جذبہ سے سرشار ایک نسل نو سامنے نہ آئے۔اس مقصد کیلئے انھوں نے ایک مربوط کوشش کا آغاز کیا ۔اس کاوش کی ایک جھلک ام القری یونیورسٹی (مکہ مکرمہ) کے استاذ ڈاکٹر ماجد عرسان الکیلانی نے اپنی کتاب’’ھکذا ظہرَ جیل صلاح الدین وھکذا عادت القدس‘‘میں بیان کی ہے۔ ’’546تا 550ھ (1151ء تا 1155ء )کے درمیانی عرصہ میں مدارس اصلاح کے باہمی ربط و اتصال کی تحریک جاری ہوئی،جس کا مقصد یہ تھا کہ تمام کوششوں کو متحد کیاجائے اور باہمی تعاون کو منظم کیا جائے اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے متعدد اجتماعات منعقد کیے گئے جن کے تنطیمی اورنظریاتی سطح پر اہم نتائج بر آمد ہوئے۔ تنظیمی سطح پر باہمی ربط کی کوشش ،مدارس اصلاح کیلئے متحدہ قیادت کی صورت میں سامنے آئیں۔ اس میں پورے عالم اسلام کی سطح پر اتحاد کی صورت پیدا ہوئی۔ قیادت کے مذکورہ اتحاد کے مقصد کیلئے پہلا اجتماع مدرسہ قادریہ کی رباط میں منعقد ہوا، یہ رباط ،بغداد کے محلہ ’’حلہ‘‘ میں واقع تھی۔جہاں عراق اور بیرون عراق سے پچاس سے زیادہ شیوخ حاضر ہوئے۔دوسرا اجتماع موسم حج کے دوران ہوا، جس میں عالم اسلامی کے مختلف کونوں سے اصلاحی مدارس کے شیوخ جمع ہوئے۔ اس اجتماع میں عراق سے حضرت شیخ عبدالقادر ،حضرت شیخ عثمان مرزوق (جن کی شہرت مصر میں پھیل چکی تھی)شیخ المدین مغربی(جو المغرب میں اشاعت زہد کے قائد تھے)نے شرکت کی، اس طرح یمن سے متعدد شیوخ اجتماع میں شامل ہوئے جن کے امورمنظم کرنے کیلئے حضرت شیخ نے اپنا ایک نمائندہ ان کے ساتھ روانہ کیا۔ اس دوران شیخ عبدالقادر اور شیخ رسلان دمشقی کے درمیان روابط جاری رہے۔اسکے بعد وسیع پیمانے پر اجتماع منعقد ہوا جس میں عالم اسلام کے مختلف علاقوں سے مدارس اصلاح کی نمائندگی کرنیوالے تمام بڑے شیوخ شامل تھے۔ا س اجتماع کا اہم ترین نتیجہ یہ تھا کہ ایک متحدہ قیادت عالم وجود میں آئی ۔ (جس کی سربراہی جناب شیخ عبدالقادر جیلانی کے سپرد تھی)اس متحدہ قیادت کافرض تھاکہ وہ مدارس اصلاح کی سرگرمیوں کو مربوط کرے اور انکا رخ اشاعت زہد اور نئی نسل کی تربیت کی طرف موڑ دے اور اس بات کا خیال رکھے کہ انکاکردار اس عہد کے اسلامی معاشرے کے ان امراض کے علاج کے محور کے گرد گھومتا رہے جن امراض سے چیلنجوں کے سامنے اسے کمزور کردیا ہے۔ اور اندرونی فرائض کی ادائیگی میں بے بس کردیا ہے۔ (عہد ایوبی کی نسل نو اور القدس کی بازیابی)