• news
  • image

جمعۃ المبارک 5 ؍ ربیع الاول  1442ھ‘  23؍اکتوبر  2020ء

سی سی پی او لاہور کا خاتون سے نازیبا الفاظ کا معاملہ، وزیراعظم، وزیر اعلیٰ کی برہمی 
محکمہ پولیس کے بارے میں اگر کہا جائے کہ ’’آوے کا آوا‘‘ ہی بگڑا ہوا ہے تو مبالغہ ہو گا نہ تہمت نہ غلط بیانی ۔ کانسٹیبل سے لے کر کسی بھی اعلیٰ افسر تک چلے جائیں سب کا لہجہ ایک جیسا ہی ہوتا ہے اس لیے سی سی پی لاہور بھی ’’اسی قبیلے‘‘ کے فردہیں، شکوہ بے جا ہے ۔ رائیونڈ کی ایک خاتون نے اپنے شوہر پر منشیات کے مقدمہ پر تھانیدار پولیس چوکی اڈا پلاٹ کیخلاف درخواست دی تھی اس نے سی سی پی او کو فون کیا تو ’’بقول شخصے‘‘ سی سی پی او نے گالیوں سے نوازا جس پر وزیر اعظم اور وزیراعلیٰ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے رپورٹ طلب کر لی۔ ترجمان لاہور پولیس کے مطابق سی سی پی او 24 اکتوبر تک رخصت پر ہیں۔ پولیس کو جتنا مرضی مہذب بنانے کی کوشش کریں ، تھانوں کے سائن بورڈز کے رنگ بدل دیں ، پولیس کی وردی بدل دیں ، اخلاقیات پر جتنا بھی وعظ کر لیں۔ پولیس کا رویہ کبھی تبدیل نہیں ہو سکتا بلکہ یہ وہ ’’دم‘‘ ہے جو کبھی سیدھی نہیں ہو سکتی اور پھر جب پولیس افسر سی سی پی او لاہور جیسا ’’طاقتور‘‘ ہو جس کے آنے پر آئی جی کی ’’رخصتی‘‘ کی ’’سلامی‘‘ دی گئی ہو اور جس  کے ’’اشارہ ابرو‘‘ پر ایک ا یس پی کو تبدیل کر دیا گیا ہو تو ا یسے افسر کی تو شان ہی نرالی ہوتی ہے۔ پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس قیصر رشید نے بھی یقیناً اسی تناظر میں ریمارکس دیئے ہیں کہ ’’سی سی پی او لاہور جو کر رہے ہیں یہاں نہیں کرنے دینگے۔‘‘ اس لیے وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کی برہمی محض ’’گونگلوئوںسے مٹی جھاڑنے‘‘ کے مترادف ہے۔ سی سی پی او بھی یقیناً گنگناتے ہوئے لطف اندوز ہو رہے ہونگے کہ…؎
 نوٹس ملیا تے ککھ نہ ہلیا 
کیوں سوہنے دا گلہ کراں 
میں لکھ واری بسم اللہ کراں 
٭٭٭٭
پشاور میں چینی 115 روپے کلو ہو گی 
پورے ملک کی طرح پشاور والوں کو بھی ’’حکومتی مٹھاس‘‘ (تبدیلی) کا مزہ آ گیا ہے ، چینی کی بوری 5 ہزار، 700 روپے کی ہو گئی ہے۔ اس لیے اب چیزیں پھیکی نہیں ، کڑوی لگنے لگی ہیں۔ کیونکہ اہل پشاور سمیت پوری قوم نے جو مزہ چکھ لیا ہے اس سے تو واقعی چینی کی مٹھاس بھی کم لگتی ہو گی کیونکہ…؎ 
جدوں دا تیرا پیار چکھیا 
سانوں پِھکیاں لگن مٹھائیاں 
ایک چینی ہی نہیں ، ضروریات زندگی کی ہر چیز نے ’’پیارے پاکستانیوں‘‘کو دن کے وقت تارے دکھا دئیے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری بھی ایک د عویٰ لے کر اٹھے ہیں کہ ’’حکومت نے جو تاریخی مہنگائی کی ہے ، اس کو صرف پیپلز پارٹی ہی سنبھال سکتی ہے۔‘‘ پتہ نہیں ، بلاول کون سی ’’گیدڑ سنگھی‘‘ لائے ہیں۔ ورنہ بلاول کے بابا جان کے دور حکومت میں کون سا کا ’’من و سلویٰ‘‘ اترتا رہا ہے جبکہ تحریک انصاف کی حکومت بھی سارا ملبہ (زرداری ، نواز شریف کی) سابقہ حکومتوں پر ڈال رہی ہے اسی ’’آنکھ مچولی‘‘ میں قوم کو یہ دن دیکھنا پڑ رہے ہیں۔ دیکھتے ہیں بلاول کا ’’نعرہ مستانہ‘‘ کیا رنگ لاتا ہے کیونکہ :
آہ کو چاہئے ، اک عمر اثر ہونے تک 
٭٭٭٭٭
5 جنوری تک نواز شریف کو واپس لانے میں کامیاب ہو جائیں گے: فواد چودھری 
فواد چودھری کے پاس نہ تو وزارت خارجہ کا قلمدان ہے نہ ہی ان کا پراسیکیوشن کے معاملات میں عمل دخل ہے اس لیے انٹرپول اور تحویل ملزمان کے حوالے سے بھی ان کا کوئی کردار نظر نہیں آرہا۔چونکہ وہ سائنس و ٹیکنالوجی کے وفاقی وزیر ہیں اس لیے چاند ، ستاروں کی دنیا میں بستے ہیں اور ستاروں پر کمندیں ڈالتے رہتے ہیں۔ اس حوالے سے ان کی کئی کاوشیںکامیاب بھی ہوئی ہیں جن میں رویت ہلال جیسا اہم مسئلہ بھی شامل ہے اور اپنی سائنسی و تکنیکی سوجھ بوجھ اور تحقیقات سے انہوں نے چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل کو بھی اپنا گرویدہ بنا لیا ہے۔ فوادچودھری 5 جنوری تک نواز شریف کو واپس لانے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں۔ ابھی دو ، اڑھائی مہینے پڑے ہیں تاہم پوری قوم کو انتظار رہے گا کیونکہ …؎
نئی سحر کے بہت لوگ منتظر ہیں مگر 
نئی سحر بھی جو کجلا گئی تو کیا ہو گا 
نہ رہنمائوں کی مجلس میں لے چلو مجھ کو 
میں بے ادب ہوں ، ہنسی آ گئی تو کیا ہو گا 
یہ فکر ہے کہ اس آسودگی کے دھوکے میں 
تیری خودی کو بھی موت آ گئی تو کیا ہو گا 
٭٭٭٭٭
صدر ٹرمپ کا چین میں ایک بنک اکائونٹ ہے: نیو یارک ٹائمز 
امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے مزید انکشاف کیا ہے کہ ’’صدر ٹرمپ برسوں تک چین میں کاروباری منصوبوں کی تلاش میں رہے ہیں، اکائونٹ کو ٹرمپ انٹرنیشنل ہوٹلز مینجمنٹ کے ذریعے کنٹرول کیا جاتاہے‘‘ ہم تو سمجھے تھے کہ حکمرانوں کے کاروباری ہونے اور د وسرے بڑے ملکوں میں اکائونٹ کھلوانے کی روایت تیسری دنیا کے سربراہان مملکت کی ہی ہے لیکن اس میں تو بڑے بڑے ’’پردہ نشینوں‘‘ کے بھی نام آگئے ہیں۔ اب سرے محل، سوئس اکائونٹس ، لندن اور دبئی میں فلیٹس کی باتیں تو معمولی لگتی ہیں لیکن ایک فرق ضرور ہے کہ دوسرے ملکوں کے سربراہوں کے کاروباری معاملات اور اکائونٹس تو زمام اقتدار سنبھالنے سے پہلے کے ہوتے ہیں اور ہمارے ہاں سب کچھ منصب سنبھالنے کے بعدبنایا جاتا ہے۔ اس لیے اچنبھے کی کوئی بات نہیں ، اقتدار کاروبار اور بیوپار کی دنیا کا ’’نصاب‘‘ ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔ کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ …؎
گلشن گلشن ، محفل محفل ، ایک ہی قصہ ،ایک ہی بات 
ظالم دنیا ، جابر دنیا ، جانے کب یہ بدلے گی 
تم ہو آگ تو ہم ہیں پانی ، تم ہو دھوپ تو ہم ہیں چھائوں 
اپنا تمہارا ساتھ ہی کیا ہے ، ہم پر جا‘ تم راجا جی 
٭٭٭٭

epaper

ای پیپر-دی نیشن