ہم اول وآخر پاکستانی ہیں ۔ مادرِ جمہوریت
مادر جمہوریت بیگم نصرت بھٹو نے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء کو یہ شہرہ آفاق پیغام دیا تھا ’’ ہمارے سر کٹ سکتے ہیں، جھک نہیں سکتے۔ ہم عوام کے حقوق کیلئے نسل درنسل لڑیں گے۔‘‘
ملک میں جبرو تشدد کے ماحول میں ان کا یہ پیغام پارٹی کے غریب کارکنوں اور عوام میں گونجنے لگا انہوں نے بے شمار مظالم برداشت کئے اور اس پیغام پر عمل پیرا رہے۔ کوڑے کھائے، پھانسی چڑھے، جلاوطن ہوئے اور آہنی عزم کے ساتھ سراپا احتجاج رہے۔ چیئرمین پی پی پی قائدعوام ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے بعد بیگم نصرت بھٹو نے سیاسی اور جمہوری جدوجہد تیز کردی۔ ملک میں عوام انکے ساتھ تھے۔ انجام کار جنرل ضیاء نے عوامی قوت تسلیم کرکے 16 ستمبر 1979ء کو عام انتخابات منسوخ کردئیے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے ترجمان اخبار’’مساوات‘‘ کو بند کردیا۔ اور سخت ترین سنسر شپ عائد کردی گئی۔ ڈکٹیٹر کی اس بزدلانہ کارروائی سے پارٹی کے کارکنوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر کو گرفتار کرکے جیل میں بند کردیا گیا۔ انہوں نے حوصلہ مندی سے ظلم اور جبر برداشت کیا۔ پارٹی کارکنوں نے بھی بے مثال بہادری سے تکالیف اور اذیت برداشت کی اور پاکستان کی اور پاکستان کی فضا جئے بھٹو کے نعروں سے گونجنے لگی۔ یہ بدترین تاریخی دور تھا ۔ انہوں نے مسلسل قید و بند کی مشکلات اور مصائب برداشت کئے لیکن ہمت نہ ہاری اور نہ سرجھکایا۔ بیگم نصرت بھٹو نے جنرل ضیاء کی ظالمانہ اور وحشیانہ کارروائیوں کیخلاف نسل در نسل لڑنے کا جوپیغام دیا تھا اس اعلان سے کارکنوں کو بہت حوصلہ ملا۔ ان میں جوش و خروش بھردیا اور مارشل لاء مظالم کا آہنی عزم سے مقابلہ کیا۔ یہاں اس امر کا اعادہ ناگزیر ہے کہ مادرِ جمہوریت عزم و استقلال کا پیکر اور آمرانہ قوتوں کے خلاف مزاحمت اور جمہوریت کی علامت تھیں۔ انہوں نے روارکھے گئے مظالم کا جس بہادری اور جرأت مندی سے مقابلہ کیا وہ پاکستان میں جمہوری جدوجہد کی تاریک کی شاندار مثال ہے۔
قائد عوام کے بعد پی پی پی کیلئے حالات بڑے خراب تھے۔ ہر طرف خوف طاری تھا۔ اسکے باوجود بیگم نصرت بھٹو مارشل لاء کیخلاف سینہ سپر ہوگئیں۔ جرأت و بہادری عوام کے حقوق کی آواز بلند کی۔ بیگم صاحبہ کو جدوجہد روکنے کیلئے جیل اور گھر میں نظر بند کردیا گیا لیکن اس بہادر خاتون نے مضبوط اعصاب کے ساتھ تمام مشکلات و مصائب برداشت کئے۔ کارکنوں نے بھی اپنی قائد کی پیروی میں جمہوری جدوجہد میں بہادری کے نئے باب رقم کئے۔اور اپنے کردار وعمل سے سیاست کو عبادت کا درجہ دیا۔ پاکستان پیپلزپارٹی کا پرچم بلند رکھا۔ انہیں یہ تقویت مادرِ جمہوریت کی ولولہ انگیز قیادت سے ملی۔
بیگم صاحبہ پر قذافی سٹیڈیم میں بہیمانہ تشدد کیا گیا، خون آلودزخمی بیگم نصرت بھٹو کی تصویرتمام عالمی اخبارات میں شائع ہوئی جس سے جنرل ضیاء کی بربریت آشکار ہوئی اور انکی ظالمانہ حکومت کا سیاہ چہرہ بے نقاب ہوا۔ بیگم نصرت بھٹو پر دوسرے درجہ کا ذہنی تشدد کیا گیا۔انکی جواں سال بیٹی بے نظیر کو قید و بند کرکے بیگم صاحبہ سے علیحدہ کردیا گیا۔ سکھر جیل میں ان پر شدید تشدد کیا گیا گرمی کی شدت بے نظیر بھٹو کا حوصلہ پست نہ کرسکی اور جنرل ضیاء کے جبرکو چیلنج کرکے اس کی نیندیں اڑا دیں۔ بیگم نصرت بھٹو 22 نومبر 1982ء کو موذی مرض کے علاج کیلئے جرمنی کے شہر میونخ پہنچی۔ انکی ہمشیرہ محترمہ بہجت ہریری انکے ہمراہ تھیں۔ بیماری نے انہیں بے حد کمزور کردیا تھا۔ نقاہت کے نقوش انکے چہرہ سے عیاں تھے، اپنی علالت کے باوجود یورپ سے آئے ہوئے پارٹی کارکنوں کے ایک اجتماع سے خطاب کیا۔ اپنے خطاب میں انہوں نے کہا ملک میں مارشل لاء کا خاتمہ، جمہوری اور انسانی حقوق اور آئین کی بحالی کیلئے یورپ میں مقیم پاکستانیوں اور پارٹی کارکنوں کا یہ فرض ہے کہ وہ آگے بڑھیں، مارشل لاء کی باپندیوں کی پروا کئے بغیر سراپا احتجاج بن جائیں اور ملک میں مارشل لاء کے بظاہر مضبوط لیکن اندر سے کھوکھلے ستونوں کو آخری ٹھوکر لگا کر زمین بوس کردیں۔
بیگم صاحبہ نے بھٹو صاحب کی شہادت کے بعد ایک طرف پارٹی کارکنوں کو سنبھالا ، مایوسی کا شکار عوام اور کارکنوں کو حوصلہ دیا اور دوسری طرف جنرل ضیاء کی آمریت کیخلاف مزاحمت کی تحریک شروع کی جو اپنی مثال آپ ہے۔ 23 مارچ 1928 ء کو پیدا ہونے والی یہ خاتون 23 اکتوبر 2011ء کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئیں۔ بیگم صاحبہ کو بعداز مرگ مادرِ جمہوریت کا خطاب دیا گیا اور پاکستان کا سب سے بڑا اعزاز نشانِ پاکستان ۔ بیگم نصرت بھٹو ایک دردمند، شفیق، بہادر اور جرأت مند خاتون تھیں۔ ان اوصاف کی بدولت پی پی کے کارکنوں اور پاکستان عوام میں احترام و عقیدت سے یاد رکھی جائیں گی۔بیگم نصرت بھٹو کی زندگی کا روشن پہلو وطن اور پاکستان کی محبت ہے۔ میرے ساتھ ایک انٹرویو میں انہوں نے پاکستان سے اپنی محبت کا اظہار ان الفاظ کیا تھا ’’ میں نئی نسل اور نئی پود کے ذہن میں پوری قوت کے ساتھ یہ بات ڈالنا چاہتی ہوں کہ ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان ہی ہمارا سب کچھ ہے اور یہ پاکستان ہی دراصل ہماری زندگی ہے ہم اول و آخر پاکستانی ہیں۔ نئی نسل کے ذہن میں یہ باتیں بٹھائی گئی ہیں کہ وہ مہاجر ہیں، سندھی، بلوچ اور پٹھان ہیں یہ بالکل غلط باتیں ہیں۔ہم سب پہلے پاکستانی اور بعد میں کچھ اور۔ پاکستان ایک نیا ملک ہے اسکی بنیادوں کو مستحکم کرنا نئی نسل کا فرض ہے۔ ہمیں صرف پاکستان اور پاکستان کی بات کرنی چاہئے۔ اگر کوئی اندرون ملک یا بیرون ملک پوچھے کے آپ کہاں سے ہیں، کہاں کے رہنے والے ہیں۔ وہ صرف یہی لفظ کہے کہ میں پاکستان کا رہنے والا ہوں۔‘‘
1975ء میں میکسیکو میں خواتین کی عالمی کانفرنس میں بیگم نصرت بھٹو نے خاتونِ اول کی حیثیت سے پاکستان کی نمائندگی کی۔ اس عالمی کانفرنس میں انہیں نائب صدر چنا گیا جو پاکستان کیلئے بہت بڑا اعزاز تھا ۔ بیگم نصرت بھٹو نے اپنی جدوجہد سے خواتین میں سیاسی و سماجی شعور کے دروازے کھول دئیے جو پاکستان کی تاریخ کا بے مثال کردار ہیں اور اسکے انمٹ نقوش قائم و دائم رہیں گے۔اس بہادر، جرأت مند اور نیک دل خاتون کو پاکستان کے غریب عوام ہمیشہ عزت و احترام اور عقیدت سے یادرکھیں گے۔ اور انکی برسی اسی حقیقت کی غماز ہے۔