• news
  • image

سیاسی مخالفین کو بزور دبانے کا شاہکار کلچر 

یہ تو اٹل حقیقت ہے کہ کوئی بھی حکومت چاہے وہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر آئی ہو یا کسی ماورائے آئین اقدام کے تحت اقتدار پر براجمان ہوئی ہو‘ اپنے خلاف کسی تحریک یا احتجاج کو برداشت نہیں کرسکتی چنانچہ حکومت مخالف کسی تحریک کو ریاستی اتھارٹی اور حکومتی انتظامی مشینری کے زور پر دبانا ہماری حکومتوں کا خاصہ رہا ہے۔ دانشمندی کا تقاضا تو یہی ہوتا ہے کہ اول تو بہتر گورننس کی بنیاد پر کسی حکومت مخالف تحریک کی نوبت ہی نہ آنے دی جائے اور اگر سوسائٹی کا کوئی طبقہ بشمول اپوزیشن کسی ایشو کو بنیاد بنا کر حکومت کیخلاف احتجاج کیلئے سڑکوں پر آتا ہے تو اسکے ساتھ ڈائیلاگ کا راستہ کھول کر مطالبات جائز ہوں تو منظور کرکے اور عملی اقدامات اٹھا کر احتجاجی طبقے یا طبقات کو مطمئن کر دیا جائے تاہم اس کیلئے معاملہ فہمی‘ تحمل‘ برداشت اور عقل و خرد کی ضرورت ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے سیاسی کلچر میں آج تک حکومتی اور اپوزیشن دونوں سطحوں پر معاملہ فہمی اور برداشت کا فقدان ہی رہا ہے اور بالخصوص حکمران طبقات کی تو ریاستی طاقت کی تقویت حاصل ہونے پر معاملہ فہمی والی آنکھیں بند ہی ہو جاتی ہیں اس لئے ہمارے سیاسی کلچر میں جمہوری اقدار کبھی مستحکم نہیں ہو پائیں۔ 
اپنے مخالفین کو دبا کر رکھنا مطلق العنان حکمرانوں کی تو مجبوری ہوتی ہے کہ انکی جڑیں عوام میں موجود نہیں ہوتیں مگر کسی منتخب سول حکمرانی میں بھی مخالفین کو دبانے کیلئے مطلق العنان حکمرانوں والی پالیسیاں اختیار کی جائیں اور سلطانیٔ جمہور کے ثمرات سے عوام کو محروم بھی رکھا جائے تو اسے بالآخر حکومت مخالف عوامی تحریکوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو کسی مرحلے پر تشدد کا راستہ بھی اختیار کر سکتی ہیں۔ میں نے بطور پولیٹیکل اور کورٹ رپورٹر اپنے صحافتی فرائض کی انجام دہی کے دوران سول اور جرنیلی آمروں کیخلاف اٹھنے والی متعدد عوامی تحریکوں کا مشاہدہ بھی کیا ہوا ہے‘ ان تحریکوں کے پس منظر سے آگاہی کیلئے بھی سرپھٹول کرتا رہا ہوں اور ان تحریکوں کے انجام کی بھی تھوڑی بہت خبر رکھتا ہوں۔ کچھ تحریکیں تو جسمانی تشدد اور قیدوبند کی صورت میں میں نے بھگتی بھی ہوئی ہیں اور کچھ تحریکوں میں موت کو اپنی آنکھوں کے سامنے ناچتا ہوا بھی دیکھا ہے۔ بھٹو مرحوم کی سول آمریت کا میں نے نوعمری میں مشاہدہ کیا جس کیخلاف بالآخر قومی اتحاد کی 9 ستاروں والی تحریک ابھری جس نے بھٹو حکومت کی پرتشدد پالیسیوں کے باعث تشدد کا راستہ اختیار کیا چنانچہ بھٹو مرحوم کو انتخابات کے انعقاد کا مرحلہ طے کرنے کے باوجود ضیاء الحق کے مارشل لاء کے ذریعے گھر اور پھر عالم بالا میں جانا پڑا۔ اس تحریک کو دبانے کیلئے ریاستی‘ انتظامی مشینری کا بے مہابا استعمال کیا گیا۔ حکومتی ذاتی فورس ایف ایس ایف کو بھی بروئے کار لایا گیا اور احتجاجی خواتین کو دبانے کیلئے ’’نتھ فورس‘‘ کے جلوے بھی دکھا دیئے گئے۔ 
اس تحریک کے دوران میں 23؍ مارچ 1977ء کو مشتعل پولیس کے ہتھے چڑھا جو چوک لاہور ہائیکورٹ سے ائرمارشل اصغرخان کی زیرقیادت برآمد ہونیوالے پی این اے کے جلوس کو عملاً کچلنے کیلئے ہر قسم کے اسلحہ سے لیس تھی۔ میں اس وقت روزنامہ وفاق کیلئے فرائض سرانجام دے رہا تھا کہ پولیس کے ایک مشتعل دستے نے میرے سر پر بندوقوں کی سنگینیں تان کر مجھے حراست میں لیا اور پھر جسمانی تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے مجھے پولیس وین میں دھکیل دیا جس میں اے این پی کے لیڈر رائو مہروزاختر کے صاحبزادے مسعود اختر پہلے ہی خون میں لت پت پڑے تھے‘ اسی طرح پی این اے کے تشدد زدہ متعدد دوسرے کارکن بھی پولیس وین میں بے بسی کی تصویر بنے بیٹھے تھے۔ ہمیں راستے بھر مزید تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے پولیس تھانہ سول لائنز لے جایا گیا جہاں حوالات میں ڈال کر رات بھر کھڑا کرکے جگائے رکھا گیا اور اگلے روز ہمیں کیمپ جیل منتقل کر دیا گیا۔ اس ریاستی دہشت گردی میں میرا صحافی ہونا بھی میرے کسی کام نہ آیا اور مجھے گھیرائو‘ جلائو‘ بلوے‘ قتل و غارت گری اور لوٹ مار کے سنگین جرائم والے اٹھارہ مقدمات میں ملزم نامزد کر دیا گیا۔ جیل کے اندر سیاسی کارکنوں اور قائدین کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جاتا وہ ایک الگ داستان ہے۔ تقریباً ایک ماہ جیل میں گلنے سڑنے کے بعد مجھے پی این اے کی لیگل ٹیم کے ذریعے ضمانت پر رہائی نصیب ہوئی۔ اس واقعہ کے 44 سال گزرنے کے بعد بھی مجھے اپنے خلاف درج مقدمات کے بارے میں علم نہیں ہو سکا کہ وہ ابھی تک فائلوں میں موجود ہیں یا داخل دفتر ہوچکے ہیں۔ میں جمہوریت کی عملداری اور آئین و قانون کی حکمرانی کیلئے ہمیشہ فکرمند رہتا ہوں مگر جب بھی اپنی گرفتاری اور پولیس تشدد کا منظر میری آنکھوں کے سامنے گھومتا ہے تو میرا دماغ گڑبڑانے لگتا ہے۔ 
پھر ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دوران مسلسل سات سال تک میں نے سیاسی کارکنوں کو ریاستی طاقت کے زور پر دبانے کے واقعات کا عملی مشاہدہ کیا ہے کیونکہ ایم آر ڈی کی تحریک کی کوریج میری صحافتی ذمہ داریوں کا حصہ تھی۔ اس تحریک کے دوران بھی میں کئی بار خود ریاستی تشدد اور پولیس لاٹھی چارج کی زد میں آیا۔ ایک بار تو دیال سنگھ مینشن کے پاس حکومتی حاشیہ برداروں نے ایم آر ڈی کے جلوس پر باقاعدہ حملہ کر دیا۔ چنانچہ ایم آر ڈی کے قائدین‘ کارکن اور صحافی پناہ لینے کیلئے دیال سنگھ مینشن کی بالائی منزل پر گئے تو حملہ آوروں نے لکڑیوں کو آگ لگا کر ہماری جانب پھینکنا شروع کر دیا اور ساتھ ہی ساتھ پتھرائو بھی کرتے رہے۔ یہ وہ لمحہ تھا جب موت آنکھوں کے سامنے نظر آرہی تھی۔ اور پھر بیرون لوہاری گیٹ کا وہ منظر تو آج بھی تصور میں آکر میرے رونگٹے کھڑے کر دیتا ہے جب پولیس نے ایم آر ڈی کے کارکنوں پر سیدھے فائر کئے جس کے نتیجہ میں ایم آر ڈی کے 20 کارکن موقع پر ہی شہید ہوئے۔ ایک گولی میرے سر کے عین اوپر سے گزری مگر خدا نے محفوظ رکھا۔ 
بدقسمتی سے برسر اقتدار طبقات کی اپنے مخالفین کو ریاستی اختیارات و وسائل کے ذریعے دبانے کی سوچ آج بھی غالب نظر آتی ہے اور جب یہ سوچ کسی منتخب سول جمہوری حکمران کی جانب سے بروئے کار لائی جاتی ہے تو میرے مشاہدے کے مطابق اس سے جمہوریت پر ہی زد پڑتی ہے اور پھر جمہوریت کے ساتھ یہ نوبت لانے والے ہمارے سیاسی قائدین بحالی ٔ جمہوریت کے نعرے لگاتے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ اس ناطے سے مجھے کراچی میں گزشتہ پانچ روز سے رونما ہونیوالے سانحات در سانحات پر سخت تشویش ہے کیونکہ ایک منتخب سول حکومت کے دور میں ریاستی طاقت کے استعمال کے بارے میں ماضی سے بھی بڑھ کر کچھ انہونیاں ہورہی ہیں۔ ایک انہونی آئی جی پولیس سندھ کو انکے گھر سے باقاعدہ اغواء کرکے ان سے اپنی مرضی کے مقاصد پورے کرنیوالی ہوئی۔ دوسری انہونی کراچی کے کے ایک ہوٹل میں گھس کر اور ہوٹل کے کمرے کا دروازہ توڑ کر مریم نواز کی موجودگی میں انکے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری کی صورت میں دکھائی گئی اور تیسری انہونی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کے عمل دخل کے مخالف پیپلزپارٹی کے قائد بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے متذکرہ دونوں واقعات کے معاملہ میں انکوائری کی باقاعدہ درخواست کرکے سامنے لائی گئی۔ اب آرمی چیف نے انکی درخواست پر کورکمانڈر کراچی کے ذریعے انکوائری کا حکم دیا ہے تو سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکمرانی میں جمہوریت کا مردہ خراب کرنے کا آغاز خود جمہوریت کے ان نام لیوائوں نے ہی کیا ہے۔ انکوائری کیا نتیجہ لاتی اور کیا اثر دکھاتی ہے یقیناً اس کا بھی مشاہدہ ہو جائیگا۔ مگر منہ پر ہاتھ پھیر کر اپوزیشن کو چیلنج کرنے اور اپوزیشن لیڈروں سے برا سلوک روا رکھنے کے داعی وزیراعظم عمران خان اور انہیں اس دعوے کا ’’مسکت‘‘ جواب دینے کیلئے آرمی چیف سے رجوع کرنیوالے جمہوریت کے چیمپئن بلاول بھٹو زرداری جمہوریت پر کوئی افتاد ٹوٹنے کی ذمہ داری سے خود کو کیسے بچائیں گے؟ 
٭…٭…٭

epaper

ای پیپر-دی نیشن