انصاف پر سمجھوتہ نہیں ہوگا، چیف جسٹس: بلدیاتی اختیارات کیلئے درخواستوں پر محفوظ
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ/ خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ بار کی جانب سے جسٹس فیصل عرب کے اعزاز میں عشائیہ دیا گیا۔ عشایئے میں چیف جسٹس گلزار احمد‘ سپریم کورٹ کے ججز اور سینئر وکلاء نے شرکت کی۔ سپریم کورٹ کے جسٹس فیصل عرب نے عشائیے سے خطاب میں کہا کہ اتنا اجتماع دیکھ کر اپنی شادی کا دن یاد آ گیا۔ یہاں سے جانے کے بعد بھی کچھ نہ کچھ اپنا حصہ ادا کرتا رہوں گا۔ تمام ساتھی‘ ججز‘ وکلاء برادری کا ممنون ہوں۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ بنچ اور بار کا کام انصاف دینا ہے۔ عدلیہ کی آزادی پاکستان کیلئے اہم ہے۔ وکلاء برادری پر یقین رکھتا ہوں کہ وہ آئین کی پاسداری کرتے ہوئے انصاف فراہم کرتے ہیں۔ انصاف پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ علاوہ ازیں بہاولپور بار کے وفد سے گفتگو میں جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ بینچ اور بار ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہیں، انصاف کی فراہمی کیلئے بینچ اور بار دونوں کو محنت کرنی چاہیے۔ بار کا فرض ہے کہ وہ میرٹ پر مقدمات دائر کریں تاکہ متاثرہ فریقین کو بینچ سے فوری انصاف مل سکے۔ بہاولپور بار ایسوسی ایشن کے 21 رکنی وفد نے صدر بار راجہ محمد سہیل افتخار کی سربراہی میں چیف جسٹس گلزار احمد سے ملاقات کی۔ انہوں نے کہا کہ وکلا اپنے پیشے کے ساتھ ایمانداری دکھائیں اور کیسز میں میرٹ پر دلائل دیں۔ دوسری جانبسپریم کورٹ نے سندھ میں بلدیاتی اختیارات کیلئے دائر ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرتے وکلا کو ایک ہفتے میں تحریری معروضات جمع کروانے کی ہدایت کردی ہے۔ سپریم کورٹ میں بلدیاتی اختیارات سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بینچ نے کی۔ چیف جسٹس نے کہا میئر کراچی کو کئی مرتبہ پبلک ٹرانسپورٹ کا افتتاح کرتے دیکھا، افتتاح کے اگلے ہی دن بسیں سڑکوں سے غائب ہوتی ہیں، میئر کراچی ڈیلیور نہیں کر سکتے، شائد تب ہی اختیارات واپس لیے گئے۔ جسٹس اعجا ز الاحسن نے کہا صوبوں نے قانون سازی کے ذریعے آرٹیکل 140 اے پر عملدرآمد کرنا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا ممکن ہے ماضی میں حکومتیں غلطیاں کرتی رہی ہوں۔ ایم کیو ایم کے وکیل نے کہا مقامی حکومت کے ڈلیور نہ کرنے پر آئینی اختیارات واپس نہیں لیے جاسکتے ہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کارکردگی کے حساب سے کیا آپکا اختیارات مانگنا حق بجانب ہے؟۔ سپریم کورٹ آ رٹیکل 140 اے کی تشریح کر چکی ہے، اختیارات سندھ حکومت نے دینے ہیں عدالت نے نہیں۔ کیا عدالت صوبائی حکومت کے اختیارات استعمال کرسکتی ہے، سندھ حکومت کیساتھ مذاکرات سے اختیارات لیے جاسکتے ہیں۔ لگتا ہے آپ عدالت کو سابقہ فیصلے پر نظر ثانی کا کہہ رہے ہیں۔ عدالت کا دائرہ اختیار کس حد تک ہے۔