پشاور میں دہشت گردی، بھارت کے ملوث ہونے کا امکان
سہیل عبدالناصر
ایک طرف مہنگائی نے زندگی اجیرن بنا رکھی ہے تو دوسری جانب دہشت گردی کے عفریت نے ، ہمارے سجیلے افسروں اور جوانوں کے ساتھ ساتھ پھول جیسے بچوں کی زندگیوں کا دوبارہ خراج لینا شروع کر دیا ہے۔ پشاور کی دیر کالونی کی مسجد میں درس حدیث کے دوران بم دھماکہ کی وجہ سے سات طلباء سمیت آٹھ افراد شہید اور دو اساتذہ سمیت 136زخمی ہوئے جبکہ شہادتوں میںا ضافہ کا خدشہ بھی ہے۔ پھولوں اور خوشبوئوں کا شہر پشاور دو دہائیوں تک دہشت گردی کا شکار ر ہنے کے بعد ایک بار پھر تخریب کاروں کے نشانے پر ہے۔ صوبائی پولیس،سپیشل برانچ اور سراغرساں اداروں کے کائونٹر انٹیلجنس شعبوں کے ہوتے ہوئے دہشت دوبارہ اگر منظم کاروائیاں کر رہے ہیں تو یہ سلامتی کے نظام میں سقم کی واضح نشانی ہے جس کا جائزہ لینے کی اشد ضرورت ہے۔وزیر شوکت یوسف زئی کا کہنا تھا کہ کوئٹہ اور پشاور میں تھریٹ الرٹ تھا جس کے بعد سیکیورٹی بڑھا دی گئی تھی۔ اقوام متحدہ نے کی پشاور میں ہونے والی دہشت گردی کی مذمت کی ہے۔پشاور میں دہشت گردی ، بھارت کے ملوث ہونے کا امکان ہے۔دھماکہ والے روز، مدرسہ کے غسل خانوں کی مرمت کا کام جاری تھا جس کی آڑ لے کر دہشت گرد مدرسہ کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوئے۔ پولیس اب تک پچاس مشکوک افراد کو حراست میں لے چکی ہے اور گرفتاریوںکا سلسلہ جاری ہے۔
این سی او سی نے اپنے تازہ ترین اجلاس میں کرونا پھیلنے کے اعداو شمار اور ماہرین کی آراء کو مدنظر رکھتے ہوئے ملک بھر میں شہریوں کیلئے ماسک پہننا لازمی قرار دے دیا ہے۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کی زیرصدارت انسداد کورونا کے قومی ادارے این سی او سی کے اجلاس میں بتایا گیا کہ ملک کے 11 شہروں میں کورونا وبا تیزی سے پھیل رہی ہے۔اجلاس میں وفاقی وزیر داخلہ، سیکرٹری صحت اور چاروں صوبوں کے نمائندوں نے بذریعہ ویڈیو لنک شرکت کی۔ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق کورونا وائرس سے مزید 14 افراد جاں بحق ہوگئے ہیں ، جس کے بعد اموات کی تعداد 6 ہزار 759 ہوگئی جب کہ ملک میں کورونا کے تصدیق شدہ کیسز کی تعداد 3 لاکھ 30 ہزار 200 ہو چکی ہے۔
کرونا پھیلنے کے اس ماحول میں جہاں ہماری تمام تر مصروفیات، بغیر کسی خاص احتیاط کے جاری ہیں وہیں ، اپوزیشن کے جلسے، طے شدہ شیڈول کے مطابق ، ملک کے مختلف شہروں میں منعقد ہو رہے ہیں ۔ اہم بات یہ ہے کہ ملک کے اندر سیاسی خلفشار میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔ سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف کی تقاریر کا سلسلہ جاری ہے۔ پارٹی قیادت کا خاصا بڑا حصہ، نواز شریف کے لب و لہجنے اور انکشافات پر پریشانی کا شکار ہے ۔ پارٹی راہنمائ، باہمی ملاقاتوں اور میڈیا کے ساتھ غیر رسمی رابطوں کے دوران اپنی تشویش کا اظہار کرتے رہتے ہیں لیکن بہر حال سردست مسلم لیگ (ن) میں نواز شریف سے راہیں جدا کر کے سیاست کرنے کی گنجائش نہیں اور ایسا سوچنے والے چوہدری نثار علی خان کے انجام سے دوچار نہیں ہونا چاہتے ۔ پارٹی میں ایسا کوئی راہنماء نہیں جو انہیں ، اس بیانیہ سے رکنے کا مشورہ تک دے سکے۔ اطلاعات ہیں کہ اس بیانیہ کے بارے میں مقتدرہ کی خاموشی اب ختم ہونے والی ہے اور آنے والے دنوں میں جواب آئے گا۔ جواب تو اس بیانیہ کا وزیر اعظم عمران خان اور ان کے وزراء بھی دے رہے ہیں۔ بات ذاتیات تک آن پہنچی ہے۔ ایک طرف مریم نواز کڑی تنقید کا نشانہ بن رہی ہیں تو نواز شریف نے وزیر اعظم کی بہن علیمہ خان کو نشانے پر رکھا ہے۔
ایک طرف ملک میں سیاسی لڑائی پوری شدت سے جاری ہے تو دسری جانب امریکہ اور بھارت نے ایک ایسے فوجی معاہدے پر دستخط کر دیئے ہیں جس کے نتیجہ میں جنوبی ایشیاء کے اندر روایتی اور ایٹمی طاقت کا توازن واضح طور پر بھارت کے حق میں پلٹ گیا ہے۔ کئی برسوں سے بھارت اور امریکہ کے درمیان ٹو پلس ٹو طرز کے مذاکرات چل رہے ہیں ۔ غیر معمولی انداز کے ان مذاکرات میں دونوں ملکوں کے وزرا خارجہ و وزراء دفاع شریک ہوتے ہیں تاکہ خارجہ امور، دو طرفہ تعلقات، سلامتی و دفاع اور ان سے جڑے تمام معاملات کو الگ الگ نمٹانے کے بجائے، ایک ہی مذاکراتی ننشست کے اندر طے کیا جا سکے۔ ٹو پلس ٹو کا تازہ ترین دور ، نئی دہلی میںمنعقد ہوا ہے جس میں مذکورہ معاہدے پر دستخط ہوئے ہیں۔ معاہدے کے تحت، امریکہ، بھارت کو ایسا حساس اور فوجی نوعیت کا سیٹلائٹ ڈیٹافراہم کرے گا جو اسے زمین، سمندر،فضاء ،حتیٰ کہ خلاء میں بھی بالترتیب دشمن کی فوجی فارمیشنوں، بحری ا ور فضائی جنگی جہازوں، میزائلوں اور ڈرونز کا درست نشانہ لینے، ان کی نقل و حرکت اور پوزیشن کی نشاندہی میںمدد فراہم کرے گا۔ بظاہر یہ کام ، چین کے اثر و رسوخ کو روکنے کی آڑ میں کیا جا رہا ہے لیکن چین اور بھارت کے درمیان ، 1962 کی جنگ کے بعد اب لداخ میں خونی جھڑپیں ہوئی ہیں لیکن اس کے برعکس ، پاکستان اوربھارت کے درمیان ہر وقت محاذ گرم رہتا ہے۔
فرانس نے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کی حوصلہ افزائی کر کے مسلم امہ کے خلاف ایک نئی طرز کی صلیبی جنگ چھیڑ دی ہے جس کا ترکی اور پاکستان کے قائدین نے منہ توڑ جواب دیا ہے جب کہ کم و بیش سب ہی اسلامی ملکوں کے عوام نے فرانس کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے فرانسیسی مصنوعات کے بائکاٹ کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ یوروپی ملک، جمہوریت اور آزادی اظہار کے تمام تر دعووں کے باوجود، اسلام اور اس کی مقدس شخصیات کے خلاف اپنا خبث باطن پوشیدہ نہیں رکھ سکتے۔ ان کا تعصب ظاہر ہو کر ہی رہتا ہے۔ اس متعصبانہ رویہ کے خلاف مسلمانوں کا احتجاج اسی وقت موثر ثابت ہو گا جب اسلامی ملک مضبوط معیشت، فوجی طاقت اور توانا معاشروں کے حامل ہوں گے۔