پیر‘ 15؍ ربیع الاول 1442ھ‘ 2 نومبر 2020ء
حمزہ شہباز کا بکتر بند گاڑی میں آنے سے انکار ۔ ملزم کے سامنے بے بسی ریاست کی ناکامی ہے، احتساب عدالت
اب ریاست کرے بھی تو کیا کرے۔ زبردستی ڈنڈا ڈولی کر کے حمزہ کو اٹھا کر بکتربند گاڑی میں ڈال کر لاتی ہے تو اس پر بھی شور و غل ہوتا ہے۔ نہیں لاتی تو عدالت ناراض ہوتی ہے اور متعلقہ اداروں اور افسران کو شوکاز نوٹس جاری کرتی ہے۔ اس سارے عمل میں حمزہ شہباز اطمینان سے جیل میں پڑے مسکراتے پھر رہے ہوں گے۔ ویسے بکتربند گاڑی میں عدالت جاناکوئی بری بات نہیں۔ حمزہ سے بڑے سیاستدان ، بیوروکریٹس بھی بکتربند گاڑیوں میں عدالت تک جاتے ہیں اور گاڑی میں چڑھتے اترتے ہوئے وکٹری کے نشان بناتے ہیں۔ ویسے بھی ان کی حفاظت کے لیے ایسا کرنا ضروری ہے۔ ان کے انکار پر سب سے دلچسپ تبصرہ فیاض چوہان نے کیا ہے۔ فرماتے ہیں کیا حمزہ لیموزین ، مرسڈیز یا چارٹرڈ طیارے پر عدالت جانا چاہتے ہیں۔ وہ قیدی ہیں کرپشن کیس میں عدالت جا رہے ہیں۔ سالگرہ منانے یا سیر سپاٹا کرنے نہیں۔ آج تک یہی سُنا تھا کہ گرفتار بلاکی اپنی مرضی نہیں ہوتی قیدی کی من مانی نہیں چلتی تو پھر یہ غمزہ و ادا کیا۔ نخرے کس کے لیے۔ اس وقت وہ من مرضی کر کے اپنے لیے ہی مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔ سننی ان کی کسی نے نہیں
لاکھ نخرے دکھائو سر جھکانا پڑے گا
’’بن کے قیدی بکتر بند گاڑی میں آنا پڑے گا‘‘
اس لیے وہ پپو یار تنگ نہ کر محفل کو بے رنگ نہ کر۔ والی بات پر دھیان دیں ، نہ خود تنگ ہوں نہ دوسروں کو تنگ کریں۔
٭…٭…٭
کراچی کے ساحل پر کچرا دیکھ کر وسیم اکرم پھر ناراض
وسیم اکرم اور ان کی اہلیہ شیزہ اکرم کراچی ساحل پر گندگی دیکھ کر بہت دکھی ہوئے۔ انہوں نے وہاں ساحل کی صفائی کا بیڑا اُٹھایا۔ مگر جلد ہی ان کی اہلیہ عوام کی گندگی پسند عادت کے سامنے ہتھیار ڈال گئیں اور انہوں نے اس کام سے توبہ کر لی جس کے مقدر میں ہونا لکھا ہی نہیں۔ کراچی کا ساحل اس وقت دنیا کے آلودہ ترین ساحلوں میں سے ایک ہے۔ جس کے کنارے تفریح کے لیے آنے والے گندگی کے ڈھیر چھوڑ جاتے ہیں۔ یہ عملاً
یہ اعجاز ہے حسن آوارگی کا
جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے
والی حالت ہے۔ ہم اپنا پھیلایا گند بھی صاف نہیں کرتے۔ کیا شاپر بھر بھر کر کھانے پینے کا سامان لانے والے یہ سامان کھانے پینے کے بعد اسی شاپر میں بھر کر کچرا دانوں میں پھینک نہیں سکتے۔ مگر کیا کریں ہماری بے حسی حد سے زیادہ بڑھ چکی ہے۔ اب وسیم اکرم اس پر شور کریں یا کوئی اور سیاپا ڈالے۔ عوام سدھرنے کے موڈ میں نہیں۔ گند میں رہ رہ کر وہ بھی گندگی کے عادی ہو چکے ہیں اگر کبھی اچانک راتوں رات کوئی کراچی کو صاف ستھرا کر دے تو شاید کراچی کے شہری خود اپنی سڑکوں ، گلیوں اور گھروں کو پہچاننے سے قاصر اورحیران ہوں گے شاید اسی لیے حکومت اور انتظامیہ نے انہیں ان کے حال پر چھوڑا ہے کہ خوامخواہ انہیں کیوں حیرانی وپریشان کیا جائے۔
گلگت کے عوام جتنے ووٹوں کی لیڈ دینگے اتنے ہزار کروڑ روپے حلقے کیلئے دینگے : علی امین گنڈا پور
لیجئے جناب بلاول زرداری کا توڑ حکومت نے علی امین گنڈا پور کی شکل میں ڈھونڈ لیا ہے۔ اگر بلاول گلگت بلتستان کی انتخابی مہم میں لاف زنی کر رہے ہیں تو علی امین بھی زمین و آسمان کے قلابے ملانے میں مصروف ہیں۔ ایک سیر ہے تو دوسرا سوا سیر۔ بلاول کہتے ہیں وہ اگر گلگت بلتستان میں کامیاب ہوتے ہیں تو وہاں دودھ و شہد کی ندیاں بہا دیں گے۔ ان کے سامعین سوچتے ہوں گے کیا سندھ میں ایسا ہی ہے۔ اسی طرح اب علی امین کہہ رہے ہیں ووٹر ہمیں جتنے ووٹوں کی لیڈ سے جتوائیں گے ہم اس حلقے کو اتنے ہی ہزارکروڑ کے فنڈ دیں گے۔ لوگ یہاں بھی سوچ رہے ہیں کہ خیبر پی کے میں تو ایسا ہوتا نظر نہیں آیا۔ بہرحال سب کچھ چھوڑیں لوگوں کو عادت ہی کہاں ہے سوچنے کی۔ اگر لوگ سوچ سمجھ کر ووٹ ڈالیں تو حقیقی تبدیلی آ سکتی ہے۔ مگر ہمارے سیاستدان جانتے ہیں کہ ووٹر ایک پلیٹ مرغ بریانی اور بوتل یا نان حلیم اور چائے کے کپ پر فدا ہو جاتے ہیں وہاں سوچتا کون ہے۔ اب دیکھنا ہے گلگت بلتستان کے ووٹر کروڑوں کے فنڈز پر فدا ہوتے ہیں یادودھ و شہد کی نہروں پر واری جاتے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے سیاستدانوں کی اس ’’حق گوئی‘‘ پر۔ وہ خود بھی جانتے ہیں کہ ایسا کچھ وہ کر نہیں سکتے۔ مگر انتخابی وعدے کوئی حدیث تو نہیں ہوتے ویسے بھی کہتے ہیں وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے ، وہ بھی انتخابی وعدے…
٭…٭…٭
ماسک نہ پہننے پر ڈپٹی کمشنر اسلام آبادکا خود کو ایک ہزار روپے جرمانہ
یہ ہوتی ہے ترت کارروائی۔ سرکاری طور پر بھی ماسک استعمال نہ کرنے پر بھی جرمانہ عائد ہے۔ اس لیے ڈی سی اسلام آباد نے مزید کسی کارروائی یا جنجال میں پھنسنے کی بجائے خود ہی قانون شکنی پر اپنے کو 1000 روپے جرمانہ عائد کر کے انصاف پسندی کا ثبوت دیا۔ امید ہے اب باقی افسران بھی اسی طرح یا تو سختی سے قانون کی پاسداری کریں گے یا پھر جرمانے بھگتیں گے۔ ہمارے ہاں یہ روایت ہے کہ اعلیٰ افسران خود کو قانون سے مبرا سمجھتے ہیں۔ مگر اب ایسا نہیں ہو گا۔ اس وقت کرونا کی دوسری لہر بہت سی جانوں کو اپنے ساتھ بہا لے جانے کے لئے تیار ہے۔ دنیا بھر میں ایک بار پھر حفاظتی اقدامات پر سختی سے عمل درآمد کرایا جانے لگا ہے۔ پاکستان میں بھی حکومت بار بار عوام کو خبردار کر رہی ہے کہ کرونا کی دوسری لہر سے بچائو کے لیے سخت حفاظتی اقدامات پر عمل کیا جائے۔ ماسک سے منہ ڈھانپ کر بار بار ہاتھ دھو کر ایک دسرے سے مناسب فاصلہ برقرار رکھ کر۔ غیر ضروری طور پر باہر نکلنے سے پرہیز کر کے ہم کرونا کا دوسرا وار بھی ناکام بنا سکتے ہیں۔ اگر عوام حفاظتی انتظامات نہیں کرتے تو پھر مجبوراً حکومت کو سخت یا نرم لاک ڈائون لگا کر لوگوں کی جان بچانا پڑے گی۔ ہر بات میں من مانی اچھی نہیں ہوتی اس لیے عوام بھی ازخود احتیاط سے کام لیں تاکہ حکومت کو سختی نہ کرنی پڑے۔ گزشتہ روز 800 سے زیادہ افراد میں کرونا کی علامت پائی گئیں جو بڑھتے ہوئے خطرے کی نشاندہی ہے۔