انسدادِ کرپشن: سپریم کورٹ کے احکامات
کرپشن ہمارے ملک کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اسے معیشت، معاشرت اور وسائل کے لئے ناسُور کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ کرپشن کے خاتمے کے لئے ہر دور میں ایک عہد اور عزم ضرور دہرایا جاتا رہا، کڑے احتساب کی باتیں بھی کی جاتی رہیں مگر یہ روگ اوربیماری ناصرف ختم نہ ہوئی بلکہ بڑھتی ہی چلی گئی۔ کرپشن کئی قسم کی ہوتی ہے مگر ہم کسی فلسفے میں جانے اور کرپشن کی اقسام گنانے کے بجائے مالی کرپشن یا بدعنوانی کی بات کر رہے ہیں۔آج کی حکومت کا ایجنڈا ہی کرپشن کا خاتمہ اور کڑا احتساب ہے۔ عمومی رائے ہے کہ عوام نے تحریک انصاف کے کرپشن کے خاتمے کے وعدوں اور دعوؤں پر اعتبار کرتے ہوئے اسے قابل اعتماد گردانا۔ میری نظر میں ملک سے مالی بدعنوانیوں کا مکمل خاتمہ ہو جائے تو عام آدمی کے مسائل ختم اور ملک ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔
تحریک انصاف کو اقتدار میں آئے ڈھائی سال ہونے کو ہیں گویا اُس نے اپنی ایک ٹرم کی آدھی مدت پوری کر لی ہے ۔بلاشبہ احتساب کے لئے وزیراعظم عمران خان کمٹڈ ہیں۔ ان کے بقول ’’حکومت کو اس کے احتساب کے ایجنڈے کے باعث ہی کچھ عناصر ناکام بنانا چاہتے ہیں۔ ‘‘وہ اپنا یہ عزم بھی دہراتے رہتے ہیں کہ ’’وہ اس مقصد سے پیچھے نہیں ہٹیں گے خواہ انہیں سیاسی طور پر کتنا ہی نقصان کیوں نہ اٹھانا پڑے۔ بھلے حکومت جاتی ہے تو جائے۔ وہ عدلیہ سے بھی انصاف اور احتساب کے نظام کو تیز کرنے کی درخواست کر چکے ہیں۔جلد اور سستا انصاف ہر ذی شعور کی خواہش ہے مگر انصاف کے ضابطے کسی صورت نظر انداز نہیں ہونے چاہئیں۔ انصاف میں تاخیر کو ناانصافی قرار دیا جاتا ہے ۔اسی طرح ایسا انصاف جس میں فوری فیصلے ضوابط کو نظر انداز کر کے کئے یا لئے جائیں، انصاف کے قتل سے کم نہیں۔ ہمیں ہمیشہ سے ججوں اور عدالتوں کی کمی کا سامنا رہا ہے۔ آج اگر لاکھوں مقدمات فیصلہ طلب ہیں تو اس کا بڑا سبب یہ بھی ہے۔کچھ معاملات میں جلد فیصلوں کے لئے خصوصی عدالتیں بنائی گئی ہیں، انہیںایک مخصوص ٹائم فریم دے دیا گیا ہے اوراطمینان بخش امریہ ہے کہ یہ سب کچھ سوچ سمجھ کر کیا گیا ہے۔احتساب عدالتوں کو ایک ماہ میں مقدمات نپٹانے کا پابند کیا گیا ہے مگر ہمارے ہاں دیگر عدالتوں کی طرح ان میں بھی مقدمات دس پندرہ سال تک مکمل نہیں ہوتے۔ ایک ماہ کے بجائے دو چار ماہ لگ جائیںتو سمجھ آتی ہے سال اور دہائیاں کیوں؟ اس کی کئی وجوہات ہونگی مگر ایک وجہ کسی حد تک مقدمات کی زیادتی بھی ہے۔ عدالتیں کم اور مقدمات زیادہ ہیں۔ احتساب اور عام عدالتوں میں زیادہ فرق نہیں رہ گیا۔ احتساب عدالتوں کو کڑی تنقید کا سامنا رہتا ہے ۔جو ان عدالتوں کو مطلوب ہیں ،کرپشن میں ماخوذ ہیںوہ تو واویلا کریں گے ہی لیکن کچھ کی احتساب عدالتوں کے حوالے سے تنقید بلاجواز بھی نہیں ہے۔ ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ کے فاضل ججز بھی متعدد بار برہمی کا اظہار کر چکے ہیں۔ ان عدالتوں میں نیب کے کیس سُنے جاتے ہیں اور نیب ہی زیادہ تر تنقید کی زد میں رہتا ہے حالانکہ آج اُس کے سربراہ بھی سابق فاضل جج جسٹس (ر)جاوید اقبال ہیںجو جلد انصاف کی اہمیت کو زیادہ سمجھتے ہیں۔چندروز قبل چیف جسٹس پاکستان مسٹر جسٹس گلزار احمد نے احتساب عدالتوں کو کسی بھی کیس میں التوا نہ دینے کا حکم دیا۔ اس سے قبل وہ متعینہ مدت میں فیصلے کرنے پر بھی زور دے چکے ہیں۔ التوا نہ ہونے سے یقیناًمقدمات جلد منطقی انجام کو پہنچیں گے۔ چیف جسٹس گلزار احمد ایک نامور جج ہیںوہ ایسے احکامات جذبات میں آکر نہیںبلکہ بڑی سوجھ بوجھ کے ساتھ دیتے ہیں۔ ان سے زیادہ عدلیہ اور خصوصی طور پر احتساب عدالتوں کو درپیش مسائل و مشکلات کا کس کو احساس ہوگا۔چنانچہ وہ ان مشکلات اور روکاوٹوں کودور کرنے کے لئے حکومت کو مزید 120 عدالتیں تشکیل دینے کا حکم دے چُکے ہیں۔ اس وقت احتساب عدالتوں کی کل تعداد پچیئس ہے جبکہ مقدمات کی تعداد 12 سو ہے اور یہ کیسز 9 سو ارب روپے کی مالی بدعنوانیوں کے ہیں۔ جب احتساب عدالتوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا بلاشبہ فیصلے بھی ضوابط و لوازمات کو ملحوظ رکھتے ہوئے مقررہ مدت میں ہونے لگیں گے۔ حکومت کی طرف سے مزید عدالتوں کے قیام کی منظوری دی جا چکی ہے۔ وزیراعظم نے گزشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ عدالتیں ا ور احتساب کے ادارے جلد فیصلے کریں ہم ہر طرح کا تعاون کریں گے۔ چیف جسٹس گلزار احمد پہلے سے ہی اس معاملے میں پُرعزم تھے۔ ان کے 120 عدالتوں کے قیام کے حکم کے اگلے دن ہی حکومت عدالتوں کی تشکیل کا کام شروع کر دیتی تو اب تک کافی پیش رفت ہو چکی ہوتی۔ عدلیہ نے اپنے حصے کا ابتدائی کام تو کردیا ہے، اب بال حکومت کی کورٹ میں ہے۔راقم کی سوانح عمری ’’ارشاد نامہ‘‘ میںپورا ایک باب پاکستان کی عدلیہ کی مشکلات اور ان کا حل کے موضوع پر بھی ہے۔ یقین ہے کہ اربابِ بست وکشاد احتساب اور انصاف میں تاخیر کے دیرینہ مسئلے کے مستقل حل کے لئے کافی اور شافی رہنمائی پائیں گے۔کتاب اشاعت کے آخری مرحلے میںہے انشا ء اللہ اِسی ماہ نومبر میں منتظر قارئین کے ہاتھوں میں ہو گی۔
٭…٭…٭