اور دہلی جلتا رہا ……!
سکھ قوم کے خلاف بھارتی حکمرانوں نے اپنی ریاستی دہشتگردی کا جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے، اگرچہ وہ کوئی نئی بات نہیں مگر اس ضمن میں چار دسمبر 2019 کو سابق بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ نے جو خوفناک اعتراف نما انکشاف کیا ، وہ ایسا معاملہ ہے جسے کسی طور بھی سرسری قرار دے کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ واضح رہے کہ دہلی میں اندر کمار گجرال کی 100 ویں سالگرہ کی تقریب سے خطاب کرتے موصوف ( منموہن سنگھ) نے 1984 میں ہونیوالی سکھ نسل کشی کے تناظر میں کہا کہ ’’ اگر اس وقت کے بھارتی وزیر داخلہ نرسمہا رائو ( جو بعد ازاں وزیر اعظم بن گئے) چاہتے تو اس نسل کشی کو روکا جا سکتا تھا کیونکہ اگر وہ فوری طور پر فوج کو طلب کر لیتے تو اتنے بڑے پیمانے پر سکھ تہہ تیغ نہ ہوتے‘‘۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اندر کمار گجرال کے بیٹے نریش گجرال نے اس تقریب کا اہتمام کیا تھا، اندر کمار گجرال بھی اپریل 1997 سے مارچ 1998 تک ہندوستان کے وزیر اعظم رہے ہیں۔ سبھی جانتے ہیں کہ نر سمہا رائو کی وزارت عظمیٰ میں ہی 6 دسمبر 1992 کو بابری مسجد کی شہادت کا سانحہ پیش آیا تھا۔
ماہرین کے مطابق گو اقلیتوں کیخلاف بھارتی دہشتگردی کی ایک طویل تاریخ ہے جو ایک طرف معصوم کشمیریوں کے قتلِ عام سے عبارت ہے تو دوسری جانب ہزاروں سکھوں کے خونِ ناحق سے اٹی پڑی ہے۔اس ضمن میں ایک معتبر سکھ دانشور ’’گرچرن سنگھ ببر‘‘ نے اپنی تصنیف ’’ Indian Government Organized Caranage ‘‘ پر خاصی تفصیل سے اس سارے معاملے پر روشنی ڈالی ہے ۔
اس حوالے سے یہ امر بھی خاصا توجہ طلب ہے کہ 31 اکتوبر 1984 کو انڈین وزیر اعظم اندرا گاندھی اپنے دو سکھ محافظوں ’’ ستونت سنگھ ‘‘ اور ’’ بے انت سنگھ ‘‘ کے ہاتھوں قتل ہو گئیں ۔ اس قتل کے فوراً بعد پورے بھارت میں بالعموم اور دہلی میں بالخصوص سکھ قوم کے خلاف جنونی ہندوئوں نے ایک قیامت برپا کر دی اور صرف تین دن کے اندر چھ ہزار سے زیادہ سکھ خواتین اور بچوں کو زندہ جلا دیا گیا ۔ اس صورتحال کا افسوس ناک پہلو یہ بھی تھا کہ اس وقت کے مرکزی وزراء ’’ جگدیش ٹائٹلر ‘‘ ، ’’ ایچ کے ایل بھگت ‘‘ اور ’’ سجن کمار ‘‘ سمیت بہت سے حکومتی رہنمائوں نے بذاتِ خود سکھوں کی نسل کشی کے عمل میں حصہ لیا اور پورے بھارت میں سکھوں کی جان و مال اس قدر غیر محفوظ ہو گئیں کہ ’’خشونت سنگھ ‘‘ اور جنرل ’’ جگجیت سنگھ اروڑا ‘‘ (جو سانحہ مشرقی پاکستان میں انڈین آرمی کی ایسٹرن کمانڈ کے سربراہ تھے ) کی سطح کے سکھوں کو بھی اپنی جان بچانے کے لئے ایک غیر ملکی سفارت خانے میں پناہ لینی پڑی مگر بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی نے ان ہزاروں سکھ خواتین اور بچوں کے قتلِ عام کو جائز ٹھہراتے یہاں تک کہا کہ ’’ جب کسی بڑے درخت کو کاٹ کر گرایا جاتا ہے تو اس کی دھمک سے ارد گرد کی زمین میں کچھ ارتعاش پیدا ہونا فطری بات ہے اور درخت کی زد میں آنے والی گھاس پھوس ختم ہو جاتی ہے ‘‘ ۔
اس امر کا تذکرہ بھی بے جا نہ ہو گاکہ دنیا بھر میں رہنے والے سکھوں نے اس بھارتی بربریت کو فراموش نہیں کیا اسی وجہ سے وہ بھارت سرکار کے خلاف انتہائی منظم انداز میں مہم چلا رہے ہیں ۔ امریکہ میں قائم سکھ حقوق کی تنظیم ’’ Sikhs For Justice‘‘ نے 31 اکتوبر 2013 کو مسز گاندھی کے قتل کی برسی کے موقع پر دس لاکھ سکھوں کے دستخطوں پر مبنی رٹ پٹیشن اقوامِ متحدہ کے ادارے UNHRC ( یونائیٹڈ نیشن ہیومن رائٹس کونسل ) میں داخل کرائی تھی جس میں اس عالمی ادارے سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ بھارتی حکومت کے ہاتھوں ہونے والے سکھوں کے قتلِ عام کو عالمی سطح پر سکھوں کی نسل کشی ڈکلیئر کیا جائے اور اس انسانی المیے کے ذمہ دار بھارتی رہنمائوں کو خصوصی ٹربیونلز قائم کر کے قانون و انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے اور قرار واقعی سزا دی جائے ۔
علاوہ ازیں 6 جون 2014 کو اسی سکھ تنظیم نے عالمی سطح پر انٹر نیٹ کے ذریعے دنیا بھر میں بسنے والے سکھوں کے دستخط حاصل کرنے کے لئے ایک مہم چلائی جس کو سکھ ریفرنڈم 2020 کا عنوان دیا گیا ہے ۔ اس کے مطابق 2020 میں بھارت کے باہر بسنے والے 50 لاکھ سکھ ایک ریفرنڈم کے ذریعے اس امر کا فیصلہ کریں گے کہ بھارت کے زیر قبضہ پنجاب کو بھارت سے آزادی حاصل کر لینی چاہیے یا بھارتی غلامی کو ہی اپنا مقدر سمجھنا چاہیے ۔ اس تمام صورتحال کا جائزہ لیتے انسان دوست حلقوں نے رائے ظاہر کی ہے کہ اسے اس خطے کی بد قسمتی ہی قرار دیا جانا چاہیے کہ ہندوستانی حکمرانوں نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور اپنے ماضی کے مظالم پر نادم ہونے کی بجائے انھوں نے اپنے یہاں بسنے والی مذہبی اور لسانی اقلیتوں کے ساتھ ساتھ اپنے پڑوسی ممالک کا جینا بھی محال کر رکھا ہے تبھی تو 5 برس پہلے سات جون 2015 کو ڈھاکہ میں مودی نے اعلانیہ طور پر پاکستان کو دو لخت کرنے کا سرکاری سطح پر باقاعدہ اعتراف کیا ۔
اب بھی ہندوستانی سرکار نے اپنی اس روش کو نہ صرف جاری رکھا ہوا ہے بلکہ وہ اپنے اس دہشتگردانہ طرزِ عمل کا فخریہ اظہار کرتے نظر آتے ہیں اور سفاکی کی انتہا کرتے ہوئے بے کس کشمیریوں سے بینائی چھین رہے ہیں ۔ اس صورتحال کا منطقی انجام کیا ہو گا اس کا اندازہ کرنے کے لئے زیادہ دانشور یا نجومی ہو نا ضروری نہیں کیونکہ پوری انسانی تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ دوسروں کے راستے میں کانٹے بچھانے والے کے اپنے پائوں سب سے پہلے زخمی ہوتے ہیں ۔
٭…٭…٭