پی اے سی اجلاس: گردشی قرضہ ساڑھے 22 سو ارب سے زائد، بجلی تقسیم کار کمپنیوں کے حکام کو بلانے کا فیصلہ
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹس کمیٹی نے بجلی کی قیمتوں میں اضافے اور اووربلنگ پر بھی تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ جبکہ گردشی قرضہ ساڑھے 22 سو ارب سے زیادہ ہونے پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔ کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں تمام بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے حکام کو بلانے کا فیصلہ کر لیا۔ دو سال میں گردشی قرضہ دو گنا ہو گیا، چار پانچ مرتبہ ٹیرف بڑھایا گیا۔ چوری عملے کے بغیر ہو ہی نہیں سکتی، خواجہ آصف نے کہا کہ تھانے کی بجلی چوری ہوتی ہے ، ایک تھانہ بجلی چوری کر رہا تھا اور اس کے پیچھے 60،70 گھروں کی چھوٹی سی کالونی تھی اس کو بجلی سپلائی کر رہا تھا۔ پیر کو پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی رانا تنویر حسین کی صدارت میں ہوا۔ رانا تنویر حسین نے کہا کہ گردشی قرضہ ہمارے لئے مصیبت بنا ہوا ہے، ابھی دو سال میں گردشی قرضہ ڈبل ہو گیا، اجلاس کے دوران سیکرٹری توانائی نے کمیٹی کو گردشی قرضوں سے متعلق بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ 31دسمبر 2018 کو گردشی قرضہ 1.415کھرب تھا، اس میں جون 2018سے 288ارب کا اضافہ ہوا تھا، جنوری سے جون 2019تک گردشی قرضے میں 198ارب کا اضافہ ہوا، اس سے اگلے چھ ماہ میں 243ارب کا اضافہ ہوا، جبکہ اس سے اگلے چھ ماہ میں جون 2020تک 294ارب کا اضافہ ہوا،116 ارب کا پچھلے تین ماہ میں اضافہ ہوا ہے۔ سید نوید قمر نے کہا کہ وزیر توانائی نے بیان دیا تھا کہ گردشی قرضہ زیرو پر پہنچ جائے گا، ابھی تک کوئی پلان سامنے نہیں آیا۔ شیخ روحیل اصغر نے استفسار کیا کہ آپ کے پاس ایسا کوئی طریقہ نہیں کہ اس کو روکیں؟۔ ریاض فتیانہ نے کہا کہ جون اور دسمبر میں 90فیصد اووربلنگ ہوتی ہے اس کے باوجود آپ کے نقصانات پورے نہیں ہوتے، ابھی بھی کئی کروڑ لوگ بجلی کے بغیر ہیں، سیکرٹری توانائی نے کمیٹی کو بتایا کہ گردشی قرضوں کے کئی وجوہات ہیں، سود کی رقم بہت بڑھ چکی ہے، کے الیکٹرک کو نیشنل گرڈ سے 650میگا واٹ کی بجلی فراہم کرتے ہیں، کے الیکٹرک کی طرف ادائیگی میں تاخیر ہوتی ہے توہ بھی گردشی قرضے میں چلا جاتا ہے۔ چیئرمین کمیٹی نے کہاکہ ہمارے سامنے جو تصویر ہے وہ انتہائی خوفناک ہے، بجلی چوری آپ نے پکڑنی ہے، ڈی سی آفس بل نہیں دیتا، اجلاس میں وزارت توانائی کے 2019-20کے آڈٹ اعتراضات کا بھی جائزہ لیا گیا۔ پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کی جائزہ اور عملدرآمد کمیٹی اجلاس میںا یم ڈی سوئی نادرن گیس پائپ لائن نے بتایا ہے کہ اوگرا کی طرف سے اس سال کے لئے چار لاکھ کنکشن لگانے کی اجازت ملی ہے جبکہ 28لاکھ درخواستیں زیر التوا ہیں۔ ڈومیسٹک کیسز کے لئے لیٹیگیشن کا 28 ملین کا بجٹ ہے، ریاض فتیانہ نے کہا کہ گیس کی بلنگ کے سلیب تھوڑے ہیں ، صارف کا استحصال کیا جارہا ہے ، 5سلیبز ہیں، ایک سلیب سے ایک یونٹ بھی کوئی اوپر چلا جائے تو صارف کو دوسرے سلیب کا بل آتا ہے ، دوسرے سلیب میں جانے سے بہت زیادہ بل آتاہے ، اس پر نظر ثانی کی جائے اس معاملے کوکسی مناسب فورم پر اٹھائیں ، گیس کی سلیبز بڑھا کر دس تک لے جائیں تاکہ صارف کو نقصان کم ہو۔ کے الیکٹرک 100ارب جبکہ پاکستان سٹیل مل 54 ارب روپے کے سوئی سدرن گیس کمپنی کے نادہندہ ہیں۔ پیر کو پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کی جائزہ اور عملدرآمدکمیٹی کا اجلاس رکن اسمبلی خواجہ آصف کی صدارت میں ہوا ، اجلاس میں پیٹرولیم ڈویژن کے 2004-05سے2009-10تک کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا۔ ترجمان پاور ڈویژن نے پبلک اکاونٹس کمیٹی کی میٹنگ میں اعداد وشمار کے حوالے سے خبروں کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاور ڈویژن نے کہیں بھی گردشی قرضے کو مکمل ختم کرنے کا دعوی نہیں کیا۔ تاہم کرونا کی وبا اور اس کے تناظر میں عوام کیلئے خصوصی ریلف کی وجہ سے تمام اقدامات کو نہ صرف بریک لگ گئی بلکہ سہ ماہی اور ماہانہ فیول ایڈجسمنٹ کے موخر ہونے کی وجہ سے گردشی قرضے کے بڑھنے کی رفتار مزید تیز ہوگئی۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے دور میں ہر ماہ گردشی قرضہ 39 ارب روپے بڑھا جبکہ موجودہ پی ٹی آئی دور کے 15 ماہ میں 12 ارب روپے اضافہ ہوا، گزشتہ سات مہینوں میں پی ٹی آئی حکومت نے 180بلین روپے گردشی قرضہ کم کیا تاہم کرونا وبا کی وجہ سے حکومت نے بجلی صارفین کو بڑا ریلیف دیا اور ان کے بلوں کو اس عرصے میں موخر یا کم ادائیگی کے ساتھ بھیجنا شروع کیا اس کے ساتھ ساتھ سہ ماہی اور ماہانہ بجلی کی قیمتوں میں فیول ایڈجسٹمنٹ کو بھی موخر کیا گیا تاکہ عوام پر بوجھ نہ پڑے۔