ضمیر کی مسجد کا امام
ویسے تو پوری دنیا میں چار موسموں بہار، خزاں، گرما اور سرما کا تذکرہ ملتا ہے لیکن ہماری کم علمی میں ایک خوشگوار حیرت کا اضافہ اْس وقت ہوا جب ہمارے ملک کے وزیراعظم نے یہ خوبصورت انکشاف کیا کہ ہمارے ملک پاکستان میں بارہ موسم ہوتے ہیں۔ دلِ ناداں ابھی اس بیان کی منظر کشی کے تصور سے لطف اندوز ہونے کی سوچ ہی رہا تھا کہ حقیقت نے اس وقت خوابوں کی دنیا کے دروازے پر دستک دے کر بیدار کر دیا جب ہم نے پیچھے مْڑ کر ایک نظر اپنے وطنِ عزیز کی چوہتر سالہ تاریخ پر ڈالی تو آزادی کے روز اوّل سے لیکر آج تک روز بروز جس رفتار سے زندگی کے ہر شعبہ میں جس اخلاقی تنزلی، معاشی بدحالی سیاسی عدم استحکام کا ہم شکار ہوتے جارہے ہیں اسے دیکھ کر ہمیں لگا کہ بارہ موسم تو دور کی بات یہاں ہمارے ملک میں تو ایک لمحہ بھی ایسا نہیں گزرا جسکے متعلق ہم یہ کہنا تو درکنار تصور بھی کر سکیں کہ اس ملک میں خزاں کے علاوہ بھی کسی موسم نے اپنا بسیرا کیا ہو۔ اندازہ کیجیئے جس ملک نے ہمیشہ خزاں کا موسم ہی دیکھا ہو وہاں پھر ثمر آور شجروں کا تصور کیسے؟ لیکن جب اس کے برعکس ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہر طرح کے قحط الرجال کے باوجود یہ ملک آج بھی قائم ہے اور چل رہا ہے تو پھر ذہن میں یہ سوچ ضرور جڑ پکڑتی ہے کہ ایسے میں کوئی تو ہے جو یہاں نظام ہستی چلا رہا ہے اور بیشک آج بھی اس نظام میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اپنے ضمیر کی مسجد کی خود ہی امامت کر رہے ہیں۔
یہ حقیقت اٹل ہے کہ اس دنیا میں جو آیا اس نے اپنے مالک کے پاس واپس ضرور جانا ہے لیکن قحط الرجال کے اس موسم میں پچھلے ہفتے اس ملک سے ایک ایسا شخص مْلکِ عدم کو کوچ کر گیا جو اپنے ضمیر کی مسجد کا امام تو تھا ہی لیکن جسے ہم موجودہ دور کا ولی بھی کہہ سکتے ہیں۔ دوستو جس شخص کی رْخصتی بارے عرض کرنے چلا ہوں لوگوں کیلئے محکمہ کسٹم کا یہ ریٹائرڈ سپرنٹنڈنٹ شائد معمولی شخص ہو لیکن جس طور اس شخص نے اپنی زندگی گزاری اور جو مثال یہ شخص قائم کر گیا اسکی پہچان کیلئے راقم اس شخص کی زندگی کے ایک دو واقعات بیان کرنا چاہے گا کیونکہ بقول اہل دانش انسان کی اصل پہچان نام سے نہیں اعمال سے ہوتی ہے۔ جن موصوف کا ذکر کرنے چلا ہوں قیام پاکستان سے پہلے کے متحدہ ہندوستان کے ضلع اعظم گڑھ میں پیدا ہونیوالے موصوف انگریز دور کے محکمہ سنٹرل ایکسائز اینڈلینڈ کسٹم میں بطور انسپکٹر اس وقت بھرتی ہوئے جب میرٹ کے بغیر سرکاری نوکری کا تصور ایک گناہ سے کم نہیں سمجھا جاتا تھا۔ تقرری کے ساتھ ہی انکی پہلی پوسٹنگ اس وقت کے مشرقی بنگال جو بعد میں مشرقی پاکستان اور اب بنگلہ دیش کہلاتا ہے میں ہوئی۔ آزادی کے وقت موصوف کے پاس آپشن موجود تھی کہ وہ بھارت میں جہاں انکا سارا کنبہ رہائش پذیر تھا وہاں سکونت اختیار کر لیتے لیکن بقول اْنکے اْنھوں نے اپنی زندگی کا سب سے مشکل ترین فیصلہ کیا اور اپنی ساری فیملی جس کے بیشتر افراد آج بھی ہندوستان میں رہائش پذیر اور اعلی عہدوں پر فائز ہیں انکے برعکس پاکستان میں آ کر بسنے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان آنے کے بعد موصوف نے باغبانپورہ کے علاقہ میں دو کمروں پر مشتمل ایک ایسی رہائش گاہ تعمیر کی اور اس میں سکونت اختیار کی جسکی بنیادیں نہیں تھی۔
موصوف سے انکی زندگی میں جب کبھی اس بارے سوال کیا جاتا تو انکا جواب ہوتا کہ عارضی زندگی میں مستقل بنیادیں کس کی خاطر۔ توحید پرستی کا یہ عالم کہ کہتے‘ جب تک زندہ ہوں ان شاء اللہ سر پر اللہ کی طرف سے دی گئی یہ چھت سلامت رہے گی اور وقت آج اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ آج بھی جب یہ فرشتہ صفت انسان اس دنیا سے رْخصت ہوا ہے یہ گھر اور اسکی چھت اسی طرح قائم ہے۔ گْو کہ یہ شخص اپنی پوری زندگی نظریہ توحید اور خودی کے فلسفے پر گذار کر گیا ہے لیکن انکی زندگی میں ایک ایسا واقعہ بھی عبارت ہے جس سے یہ تو پتہ چلتا ہے کہ بعض اوقات انسان کو اپنی خودی کی کیا قیمت ادا کرنی پڑتی ہے لیکن اسکے ساتھ یہ حقیقت بھی بیان کرتا ہے کہ اللہ اپنے پسندیدہ بندوں کیلیئے پھر کیسے خوبصورت ساتھی منتخب کرتا ہے اور قوموں کے کردار کی تعمیر میں گھر کی عورت کے بنیادی کردار کی کیا اہمیت ہوتی ہے۔ بقول موصوف انکی لاہور ائرپورٹ کی پر کشش پوسٹنگ پر تعیناتی تھی کہ حسب معمول صبح وہ اپنی سائیکل پر سوار ہو کر ائرپورٹ روانہ ہوئے تو بیگم نے دوپہر کے کھانے کیلئے پلاسٹک کے ایک ڈبے میں ایک روٹی اور پانی میں بنی ہوئی آلو کی بھجیا پیک کر کے مسکراتے چہرے کے ساتھ الوداع کیا۔ موصوف کہتے ہیں کہ سارے دن کی ڈیوٹی کے بعد جب وہ گھر لوٹے تو بیگم کے دروازہ کھولنے کے بعد اپنی سائیکل جسے وہ ہنسی مذاق میں بعض اوقات مرسیڈیز کے نام سے بھی پکارتے تھے جیسے ہی کھڑی کی تو انکی حیرت اس وقت اپنی انتہا کو چھو گئی جب انکی بیگم خلاف معمول قہقہ پہ قہقہ لگا کر ہنس رہی تھیں۔ استفسار پر گویا ہوئیں کہ صاحب اس لئے ہنس رہی ہوں کہ سارے دن کی مشقت کے بعد آج اپ جب گھر لوٹے ہیں تو آج رات کھانے کیلئے گھر پر کوئی گوشت کوئی دال کوئی سبزی نہیں جو اپکے لئے پکا کر رکھتی۔ صبح جب آپ گھر سے جا رہے تھے تو اس لئے اپ سے ذکر نہیں کیا کہ کہیں اپ کوئی غلط قدم نہ اْٹھا لیں جو قیامت کے روز آپکی اور میری پکڑ کا باعث بنے۔ ہنس اس لئے رہی ہوں کہ آج رات اسی طرح پانی پر روزہ رکھ کر گزارہ کرنا پڑے گا کل تنخواہ ملے گی تو پھر کل کا دن عید کے طور پر منائیں گے۔ موصوف بتلاتے ہیں کہ لمحہ بھر کیلئے تو سکتے کی حالت طاری ہوئی لیکن اگلے لمحے اللہ کا شکر ادا کیا کہ اگر امتحان لے رہا ہے تو کتنا باکمال ساتھی بھی دیا ہے۔ موصوف کہتے ہیں کہ جب اللہ امتحان لینے پر اتا ہے تو آسانیاں بھی خود پیدا کرتا ہے۔ اس واقعہ کی روداد بیان کرتے کہتے ہیں کہ سائیکل کھڑی کرنے کے بعد اپنے صحن کے کچے آنگن پر نظریں جمائے کھڑا تھا کہ سامنے کیا دیکھتا ہوں کہ صحن کے ایک کونے میں دیوار کے ساتھ ایک بیل نظر آئی جو کسی وقت سبزی بناتے وقت توری کے کسی بیج کے گرنے کی وجہ سے پھوٹی تھی اور بیگم نے دیوار کے ساتھ باندھ دی تھی کہ گھر میں ہریالی کا احساس ہو۔ بیل پر کوئی پھل تو نظر نہ آیا البتہ دماغ میں ایک ترکیب سوجھی کہ اسکے نوزائیدہ پتوں کا ساگ بنا کر اسے بطور سالن استعمال کیا جا سکتا ہے۔ بیگم سے پوچھا کوئی آٹا کوئی چاول موجود ہیں بیگم نے کہا تھوڑے سے چاول موجود ہیں کہا تو پھر کام بن گیا آج دعوت شیراز ہو گی چاول اْبالے اور ان پر توری کے پتوں سے بنا ساگ ڈال کر کھایا اور اللہ کا شکر ادا کیا کہ رزق حلال تو کھایا ہی اسکے ساتھ اس ذات نے کسی سے ادھار مانگنے سے بھی بچا کر احسان عظیم کیا۔ دوستو اسکے بعد اب آپکو پتہ چل گیا ہو گیا کہ یہ ملک اس قحط الرجال کے دور میں بھی کیسے قائم ہے اور چل رہا ہے۔