جج کو رنگ نسل سے بالا قانون کے مطابق فیصلے کرنے چاہئیں: چیف جسٹس
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ کے جج جسٹس فیصل عرب آئینی مدت مکمل ہونے کے بعد ریٹائرڈ ہوگئے ہیں۔ جسٹس فیصل عرب کے اعزار میں فل کورٹ ریفرنس میں چیف جسٹس گلزار احمد، سپریم کورٹ کے ججز اور وکلا رہنماؤں نے انکی خدمات پر خراج تحسین پیش کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس فیصل عرب کو انکے لیگل پروفیشن کے آغاز سے جانتا ہوں۔ سپریم کورٹ میں آنے سے قبل سندھ ہائیکورٹ میں جسٹس فیصل عرب کے ساتھ چھ سال گزارے۔ جسٹس فیصل عرب نرم مزاج، سچے، راست باز اور انکسار رکھنے والی شخصیت ہیں۔ جج کو رنگ و نسل سے بالاتر ہوکر قانون کے مطابق فیصلے کرنے چاہئیں۔ جسٹس فیصل عرب نے حالات اور شیخصیات سے مرغوب ہوئے بغیر فیصلہ کرنے کی ہمت دکھائی۔ جسٹس فیصل عرب نے بارکو ہمیشہ عزت دی اور بدلہ میں عزت لی۔ بینچ اور بار نظام عدل کا لازمی حصہ ہیں۔ موثر نظام عدل کے لیے بینچ اور بار میں اچھے تعلقات ضروری ہیں۔ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ بیگم کے مشورے سے 1989 میں وکالت کی ڈگری حاصل کی۔ مرحوم صبیح الدین احمد نے بطور چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ مجھے جج ہائیکورٹ بننے کی پیشکش کی۔ میں نے اس آفر کو فخریہ طور پر قبول کیا۔ قانون کے پیشے میں میں نے 15 سال بطور وکیل اور 15 سال بطور جج کام کیا۔ میں نے سینیئر ججز اور انکے فیصلوں سے رہنمائی حاصل کی۔ کوئی انفرادی شخص ادارے سے بڑا نہیں ہوتا۔ عدلیہ بطور ادارہ آئین اور قانون کے تحت ہی کام کرتا ہے۔ ججزکے ہاتھ آئین اور قانون سے بندھے ہوتے ہیں۔ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ جسٹس فیصل عرب نے انتخابی عذرداریوں، ٹیکس اور ماحولیات سمیت اہم امور میں اہم فیصلے دیئے۔ 3 نومبر کی ایمرجنسی کی مخالفت کی۔ صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن قلب حسن نے کہا کہ وکلا برادری ملک میں موجودہ احتسابی عمل پر شدید تحفظات رکھتی ہے۔ نیب کے اقدامات یکطرفہ اور سیاسی انتقام پر مبنی ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ کو احتساب کا عمل شفاف بنانے کے لیے کوئی طریقہ کار وضع کرنا ہوگا۔ نیب کیسز میرٹ پر طے ہونے چاہئیں تاکہ قوم کا آزاد عدلیہ پر اعتماد قائم رہے۔ چیف جسٹس کے عہدہ سنبھالنے کے بعد مقدمات کے التوا میں کمی واقع ہوئی ہے۔ اعلیٰ عدلیہ کے ججزکی تقرری میں شفافیت نہیں ہے۔ عدالت سے درخواست ہے کہ یہ معاملہ جلد سلجھایا جائے۔