• news

مہنگائی بہت ہوگئی، اتحادی:: سخت اقدامات، وعدے پورے کرینگے: عمران

اسلام آباد (محمد نواز رضا ۔وقائع نگار خصوصی ) وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے دیئے گئے ظہرانے میں حکومت کے اتحادیوں نے شکایات کے انبار لگا دیئے۔ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے حکومتی تحادیوں کے اعزاز میں ظہرانہ دیا گیا، جس میں ایم کیو ایم پاکستان، جی ڈی اے، بی اے پی اور جمہوری وطن پارٹی کے وفود سمیت وفاقی وزرا، پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ اور سندھ و خیبر پختونخوا کے گورنر نے شرکت کی تاہم مسلم لیگ (ق) نے ظہرانے میں شرکت سے معذرت کر لی تھی۔ ظہرانے کے دوران وزیراعظم عمران خان نے وفاقی وزرا اور اتحادی جماعتوں کے وفود سے ملکی معاشی اور سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم تمام لوگ پاکستان کو بہتر بنانے کے لیے یکجا ہیں۔ آپ کو نظر آرہا ہے کہ اپوزیشن ملک کو نقصان پہنچانے پر تلی ہوئی ہے۔ اپوزیشن مجھے بلیک میل کرنے کی پوری کوشش کر رہی ہے لیکن ان کو معلوم نہیں کہ میں نہ بلیک میل ہوتا ہوں نہ دباؤ میں آتا ہوں۔ اتحادی جماعتوں نے بھی حکومت کے ساتھ بھرپور یکجہتی کا اظہار کیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اتحادیوں نے ظہرانے میں وزیراعظم کے سامنے شکایات کے انبار لگا دئیے۔ اتحادی جماعتوں کی جانب سے ترقیاتی فنڈز اور میگا پروجیکٹ نہ دیئے جانے پر تحفظات کا اظہار کیا گیا۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے سربراہ اور وزیراعلٰی بلوچستان جام کمال نے وفاقی حکومت کی جانب سے وعدوں کی تکمیل نہ ہونے پر شکایت کیں۔ سندھ سے اتحادی جماعتوں کا کہنا تھا کہ سندھ کے ہر محکمے میں صرف پیپلز پارٹی کا کنٹرول ہے۔ سندھ کی بیوروکریسی وفاق کے منصوبوں کو بھی پیپلز پارٹی کی مرضی سے چلا رہی ہے۔ سندھ حکومت ہمارے حلقوں کو جان بوجھ کر نظرانداز کر رہی ہے۔ حکومت وفاقی منصوبوں پر اتحادی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلے۔ مسلم لیگ فنکشنل کے سربراہ پیر صاحب پگارا نے اندرون سندھ کے عوام کو نظر انداز کرنے پر تحفظات کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم آپ کے اتحادی ہیں لیکن حکومت اس کا ثبوت نہیں دے رہی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی وزیر بین الصوبائی رابطہ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے اندرون سندھ کو نظرانداز کرنے پر تحفظات ظاہر کیے۔ انہوں نے کہا کہ اندرون سندھ کے عوام کے مسائل پر توجہ دی جائے، ان کے ساتھ سوتیلوں جیسا سلوک کیا جارہا ہے۔ اندرون سندھ میں وفاقی یا صوبائی حکومتوں نے کوئی میگا پروجیکٹ یا ترقیاتی کام نہیں کیے۔ وفاق کے منصوبوں میں بھی منتخب ارکان پارلیمنٹ کو نظرانداز کرنا مناسب نہیں۔ ایم کیو ایم پاکستان کی جانب سے امین الحق اور خالد مقبول صدیقی ظہرانے میں موجود تھے۔ ایم کیو ایم کی جانب سے کراچی ٹرانسفارمیشن پلان پر عملدرآمد سے متعلق تحفظات کا اظہار کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کراچی ٹرانسفارمیشن پلان پر کام انتہائی سست روی کا شکار ہے، سندھ حکومت کے عدم تعاون کی وجہ سے کراچی کے لوگوں متاثر ہورہے ہیں، احساس پروگرام اور بیت المال میں بھی سندھ حکومت من پسند افراد کو نواز رہی ہے۔وزیر اعظم نے کہا کہ جب حکومت ملی ملک دیوالیہ ہونے کے دہانے پر تھا، معاشی ٹیم نے محنت کی اور ملکی معیشت کو استحکام ملا، 17 سال بعد کرنٹ اکاونٹ خسارہ مثبت ہوا ہے، عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے میکانزم تیار کر لیا گیا ہے۔ وزیراعظم نے اتحادی جماعتوں کو یقین دہانی کرائی کہ مہنگائی اور حلقوں کے مسائل کا انہیں خود بھی احساس ہے، ہر جگہ مافیا بیٹھا ہے۔ جو تبدیلی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ 2 سال تک مکمل توجہ معیشت کی بنیاد مضبوط بنانے پر تھی، اب پوری توجہ عوامی فلاحی منصوبوں پر مرکوز ہے۔ تمام وعدوں کو پورا کیا جائے گا اور ان پر جلد عمل درآمد ہوتا نظر بھی آئے گا۔ وزیراعظم عمران خان نے اتحادیوں کے اعزاز میں ظہرانہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وعدے پورے کیے جائیں گے۔ ہم پاکستان کو بہتر بنانے کیلئے متحد ہیں۔ اپوزیشن ملک کو نقصان پہنچانے پر تلی ہے اور کیسز سے چھٹکارا پانے کیلئے بلیک میل کر رہی ہے۔ ان کو معلوم نہیں کہ میں بلیک میل ہوتا ہوں اور نہ دباؤ میں آتا ہوں۔ مہنگائی اور حلقوں کے مسائل کا احساس ہے۔ مافیا تبدیلی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ دو سال تک معیشت کی بنیاد مضبوط بنانے پر توجہ تھی، اب عوامی فلاحی منصوبوں پر توجہ مرکوز ہے۔ ذرائع کے مطابق شاہ زین بگٹی نے لاپتا افراد کی بازیابی کا معاملہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہی بلوچستان کا سب سے اہم مسئلہ ہے۔ اس موقع پر وزیراعلیٰ بلوچستان سردار جام کمال کا کہنا تھا کہ گزشتہ دو سالوں میں سینکڑوں لاپتا افراد بازیاب کرائے ہیں۔ اختر مینگل کی لسٹ میں شامل اکثریتی لاپتا افراد گھر پہنچ گئے ہیں۔ پرویز الٰہی اور طارق بشیر چیمہ سمیت ق لیگ کے ارکان اسمبلی نے وزیراعظم کے ظہرانے میں شرکت نہیں کی۔ وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ کا کہنا تھا ہماری قیادت کے تحفظات ہیں، ہمارے تحفظات کا ازالہ نہیں کیا گیا۔ فیصلہ سازی کے کسی عمل میں شریک نہیں کیا گیا۔ مشاورت کی جاتی ہے نہ ہی کسی فیصلے پر اعتماد میں لیا جاتا ہے۔ دوسری جانب چودھری مونس الہیٰ نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ ہمارا حکمران جماعت تحریک انصاف سے اتحاد ووٹ کی حد تک ہے۔ ہمارے معاہدے میں کھانے کھانا شامل نہیں ہے۔ طارق چیمہ نے نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومتی اتحاد سے الگ نہیں ہوں گے۔ نئے الیکشن کی بات ہورہی ہے حکومت کے ساتھ ناراضگی کا قصہ پرانا ہے۔ وزیراعظم نے مہنگائی کے معاملے پر اتحادیوں سے رائے لی۔ اتحادیوں نے مہنگائی سے نمٹنے پر زور دیا۔ اتحادیوں نے مشورہ دیا کہ مہنگائی بہت ہوگئی ہے۔ سخت اقدامات اٹھائے جائیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ مہنگائی کے معاملے پر سخت اقدامات اٹھانے سے متفق ہوں۔ مہنگائی پر قابو پانے کیلئے مستقل بنیادوں پر کام کر رہے ہیں۔ ملکی معیشت بہتر ہوگئی ہے۔ معاشی اشاریئے تیزی سے بہتر ہو رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے آئندہ اڑھائی سال کوکارکردگی کے سال قرار دے دیا اور کہا کہ اگلا الیکشن کارکردگی کی بنیاد پر جیتیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن سے ذاتی مفاد کی شرائط پر ڈائیلاگ بے معنی ہوں گے۔ اگر نیب کیسز میں رعایت ہی دینی ہے تو ڈائیلاگ کا کیا فائدہ؟۔ وزیراعظم نے کہا کہ وہ تو چاہتے ہیں کہ اپوزیشن سے ڈائیلاگ کریں لیکن اپوزیشن این آر او مانگنا شروع کردیتی ہے۔ اتحادیوں کے اعزاز میں وزیراعظم کے ظہرانے میں مہنگائی پر قابو پانے کیلئے سخت اقدامات پر اتفاق بھی کیا گیا اور وزیراعظم نے کہا کہ اتحادیوں کے تحفظات سن لئے ہیں، جلد عملدرآمد ہوتا نظر آئے گا۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ہم تمام لوگ پاکستان کو بہتر بنانے کے لیے یکجا ہیں۔ اپوزیشن ملک کو نقصان پہنچانے پرتْلی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مہنگائی پر قابو پانے کے لیے مستقل بنیادوں پر کام کررہے ہیں۔ ق لیگ  نے  حکومت کو مطالبات پر عملدرآمد کیلئے ایک ہفتے کی مہلت دے دی۔ مسلم لیگ (ق) کے مرکزی سیکرٹری جنرل  اور  وفاقی وزیر ہائوسنگ اینڈ ورکس طارق بشیرچیمہ نے کہا ہے کہ ہم پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچ جائیں۔ حکومت کو جب بھی ضرورت پڑی ہم ان کے ساتھ کھڑے ہوئے، ہم آج بھی حکومت کے اتحادی ہیں لیکن اس طرح نہیں، ووٹ کی اہمیت ہے، ہماری بھی عزت ہے، جب فوٹو سیشن کرانا ہے تو چاہتے ہیں کہ سب اتحادی ساتھ ہوں پھر رویے بھی ایسے ہی ہونے چاہیئں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا مسئلہ نہیں کہ پی ڈی ایم کیا کررہی ہے، ہمارا ان سے کوئی واسطہ نہیں، ہم آج بھی حکومت سے کہتے ہیں ہم آپ کے اتحادی ہیں، ہمیں اتحادی رکھنے کی کوشش کریں۔ علاوہ ازیں وزیر اعظم عمران خان سے گورنر سندھ عمران اسماعیل  نے ملاقات کی ملاقات کے دوران سندھ میں آٹے اور چینی کی دستیابی کے حوالے سے بریفنگ دی گئی اور پاکستان آئی لینڈز اور ماہی گیروں سے ہونے والے مذاکرات کے حوالے سے بھی آگاہ کیا۔ دریں اثناء وزیر اعظم  عمران خان نے  سرمایہ کاروں کو سہولت   دینے کے لئے ترقیاتی منصوبوں کی منظوری کے عمل کو مزید سہل بنانے کی ہدایت   کرتے ہوئے کہاہے کہ جن اداروں کی طرف سے منظوری کے عمل میں بے جا تاخیر کی شکایت سامنے آئے ان افسران کے خلاف کارروائی کی جائے۔ وزیر اعظم   نے  آباد کی طرف سے  پیش کی جانے والی تجاویز پر متعلقہ اداروں کو ہدایات جاری کرتے ہوئے  اگلے ہفتے تک پیش رفت رپورٹ طلب کرلی۔ جمعرات کو وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت قومی رابطہ کمیٹی برائے ہاؤسنگ، کنسٹرکشن  اور  ڈویلپمنٹ کا ہفتہ وار اجلاس  ہوا۔ ایسوسی ایشن آف بلڈرز و ڈیویلپرز (آباد) نے اجلاس کو آگاہ کیا کہ سندھ میں 74 منصوبوں کی منظوری مل چکی ہے جن کی کل لاگت 28 ارب روپے ہے۔ ان منصوبوں کے آغاز سے 55 ارب روپے کی متعلقہ معاشی سرگرمیاں شروع ہوں گی۔ اجلاس کو آگاہ کیا گیاکہ ستمبر 2019 سے ستمبر 2020 کے عرصے میں سیمنٹ کی فروخت میں 17فیصد اور سٹیل کی فروخت میں 19 فیصد اضافہ ریکارڈ ہوا۔ اجلاس کو آگاہ کیا گیاکہ پنجاب میں جولائی 2020 سے اب تک 4714 منصوبوں کی منظوری دی جا چکی ہے۔ صوبہ پنجاب میں اکتوبر 2020 کے مہینے میں تاریخی 5.73 ملین ٹن سیمنٹ کی فروخت ریکارڈ کی گئی۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہاہے کہ اشیا ئے ضروریہ کی دستیابی اور قیمتوں کا تعین صوبائی اختیار ہے مگر غریب عوام کی سہولت مد نظر رکھتے ہوے وہ خود اس امر کی نگرانی کر رہے ہیں اور حکومت کی ہر ممکنہ کوشش ہے کہ عوام کو ریلیف فراہم کیا جائے ، اس وقت تمام معاشی اشاریے مثبت سمت میں ہیں۔ حکومت کی بھرپور کوشش ہے کہ معاشی میدان میں اس مثبت پیش رفت کے ثمرات کا فائدہ عوام کو میسر آئے۔ آٹے اور چینی کی صورتحال پر مسلسل نظر رکھی جائے اورمستقبل کی ضروریات کے پیشگی انتظامات کو یقینی بنایا جائے۔ درآمد شدہ چینی کی ملک کے مختلف حصوں میں  ترسیل کے حوالے  سے انتظامات کو یقینی بنایا جائے تاکہ ترسیل کا عمل کسی تاخیر کا شکار نہ ہو۔ جمعرات کو وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت اشیائے ضروریہ کی دستیابی اور قیمتوں  پر کنٹرول کے حوالے سے اٹھائے جانے والے اقدامات سے متعلق جائزہ اجلاس ہوا۔

ای پیپر-دی نیشن