بچوں کی حکومت کے لیے برا دن!!!!
حکومت بچوں کی ہو اور ہر روز مسائل نہ ہوں یہ ممکن ہی نہیں ہے۔ بچوں کی حکومت ہو اور مسائل حل ہو جائیں یہ بھی مشکل ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کے اختلافی نوٹ کی بات ہو یا پھر کسانوں پر چڑھائی کا فیصلہ یا پھر مہنگائی کا معاملہ ، یا پھر اتحادی جماعتوں کے ساتھ تعلقات کا معاملہ ہو ہر جگہ حکومت کی سبکی ہو رہی ہے۔ یہ جمہوری حکومت ہے جسے ہر جگہ اتحادیوں کی ضرورت ہے اتحادیوں کا ساتھ نہ ہو تو حقیقت کچھ ہوتی ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت سادہ اکثریت سے نہیں بنی انہیں قانون سازی کے لیے یا پھر پارلیمنٹ میں دیگر اہم معاملات آگے بڑھانے کے لیے اتحادی جماعتوں کی سو فیصد حمایت کی ضرورت ہوتی ہے اس حقیقت کے باوجود دو ہزار اٹھارہ میں حکومت کے قیام سے اب تک یہ وزیراعظم عمران خان کا اپنے اتحادیوں سے پہلی باضابطہ ملاقات ہے۔ اس ملاقات کا کریڈٹ بھی اپوزیشن کو جاتا ہے۔ اس میں پی ٹی آئی کی کوئی کوشش شامل نہیں ہے۔ اگر یہ حالات اتحادیوں کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کے بعد ہیں تو اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ اگر حکومت اتحادیوں کے بغیر بنتی تو اپوزیشن جماعتوں کا کیا حال ہوتا، عوام کا جو حال ہو رہا ہے وہ تو کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ پورے ملک میں چیخ و پکار کے باوجود حکومت مہنگائی کے جن کو قابو کرنے میں ناکام نظر آتی ہے۔ مسلسل مہنگائی کے باوجود حکومت نے اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنی کی ضرورت محسوس نہیں کی اگر وہ اکیلے حکمران ہوتے تو پھر شاید عوام سے احتجاج کا حق بھی چھین لیتے یہی وہ بچگانہ سوچ اور ناتجربہ کاری ہے جس کی وجہ سے آج عوامی سطح پر پاکستان تحریکِ انصاف کا تاثر بری طرح خراب ہوا ہے۔ اس خراب ہوتے تاثر میں وزیراعظم عمران خان یہ بھول چکے ہیں کہ امیج خراب ہونا کتنا نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اسی خراب تاثر نے پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے پاکستان پیپلز پارٹی کا وجود ختم کر دیا ہے۔ سندھ میں ان کی حکومت نہیں قبضہ ہے۔ایک وقت میں چاروں صوبوں میں پیپلز پارٹی کی نمائندگی تھی لیکن آصف علی زرداری کے منفی تاثر کی وجہ سے وہ صرف ایک صوبے کی جماعت بن کر رہ گئی ہے۔ ممکن ہے بعض معاملات میں آصف علی زرداری میاں نواز شریف سے بہتر ہوں لیکن صرف منفی تاثر کی وجہ سے عوامی سطح پر ان کی حیثیت میاں نواز شریف سے مکمل طور پر مختلف ہے اور سیاسی سطح پر بھی کوئی ان پر اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ مہنگائی نے پاکستان تحریکِ انصاف کے امیج کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے دو سال پہلے تک جو لوگ عمران خان کو نجات دہندہ سمجھ رہے تھے آج ان کی امیدیں بھی ٹوٹ رہی ہیں۔ عمران خان اپنے ووٹرز کی توقعات پر پورا نہیں اترے، وقت کے ساتھ ساتھ ان پر روایتی سیاست کا رنگ غالب آ چکا ہے۔ آج وزیراعظم کے بیانات یا اعلانات کو اتنی سنجیدگی سے نہیں سنا جاتا۔ وزیراعظم اعلان کرتے ہیں نوٹس لیتے ہیں لیکن کوئی فرق نہیں پڑتا۔ دو سال میں حکومت کارکردگی دکھانے اور عام آدمی کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ہے یہی وجہ ہے کہ عمران خان پر اعتماد میں مسلسل کمی آ رہی ہے۔ یہی منفی تاثر انتخابات میں تباہ کن ثابت ہوتا ہے لیکن پاکستان تحریکِ انصاف کے اکابرین اور خود جماعت کے سربراہ بھی اس پہلو کو سمجھنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔
کیا حکومت یہ سمجھتی ہے کہ مدت پوری کرنا کامیابی ہے، کیا اقتدار حاصل کرنے کا مقصد مدت پوری کرنا تھا اگر یہی مقصد تھا تو پھر عوام کے ساتھ کئے گئے وعدوں کا جواب کون دے گا۔ عوام کے ساتھ کئے گئے وعدے تو اپنی جگہ ہیں یہاں تو حکومت اتحادی جماعتوں کے منتخب نمائندوں سے کیے گئے وعدے پورے کرنے میں ناکام نظر آتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنی حکومت کے دوران پہلی مرتبہ اتحادیوں سے باضابطہ اور براہ راست بات چیت کی ہے اس سے پہلے ایک یا دو مرتبہ وہ اسلام آباد میں مسلم لیگ ق کی اعلیٰ قیادت سے ملے جب کہ اسی طرح جی ڈی اے سے کراچی میں ملاقاتیں ہوئیں، اختر مینگل سے بھی وہ اس وقت ملے جب ان سے اختلافات تھے یا کہیں ووٹ کی ضرورت تھی۔ اس کے علاوہ کہیں بھی وزیراعظم عمران خان نے اتحادیوں کو نا تو اہمیت دی نا ہی انہیں مشاورت یا فیصلہ سازی میں شریک کیا ہے۔ پگاڑا صاحب نے دلچسپ جملہ کہا ہے کہ ہم اتحادی ہیں لیکن حکومت اس کا ثبوت نہیں دے رہی۔ یہ جملہ یکطرفہ محبت کی نشانی ہے۔ پگاڑا صاحب دو سال سے یکطرفہ محبت کا شکار ہے دوسرے فریق نے ایک مرتبہ ہنس کر ہی دیکھا ہے اور وہ اس وقت سے یہی سمجھ رہے ہیں کہ آگ برابر لگی ہوئی ہے جب کہ حقیقت اس سے مکمل طور پر مختلف ہے۔ فہمیدہ مرزا کہتی ہیں کہ "حکومت اندرون سندھ کے ساتھ سوتیلوں جیسا سلوک کر رہی ہے۔ ترقیاتی منصوبوں میں مکمل طور پر نظر انداز کیا جانا تشویشناک ہے"۔ اب حکومت کے پاس ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں ہو سکتا کیونکہ بچوں کی حکومت کو یہ علم ہی نہیں کہ پارلیمانی جمہوریت میں اتحادیوں کی اہمیت کو نظر انداز کرنے کا مطلب مسائل کو دعوت دینا ہے۔ حکومت کے تمام اتحادی اور ان اتحادی جماعتوں میں شامل اکثریت تجربہ کار سیاستدان اور میدان سیاست کے پرانے کھلاڑی ہیں اور اپنے اپنے علاقوں میں ان کی اہمیت و افادیت ہے لیکن بدقسمتی سے حکومت نے اپنی نااہلی اور بچگانہ حرکتوں کی وجہ سے ان سب کو ضائع کر دیا ہے اور اب معاملات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ حکومت کی طرف سے ملاقاتوں، ظہرانے یا عشائیے بھی اعتماد بحال کرنے میں مددگار ثابت نہیں ہو سکیں گے۔ اس صورتحال تک حکومت کو اس کی نالائقی نے پہنچایا ہے اس کا الزام میاں نواز شریف، آصف علی زرداری یا مولانا فضل الرحمن کو نہیں دیا جا سکتا۔
اتحادی جماعتوں کا حکومت پر عدم اعتماد بڑھنا مشکلات پیدا کرے گا۔ اختر مینگل پہلے ہی اتحاد ختم کر چکے ہیں جبکہ چودھری برادران اپنے طور پر حکومت سے الگ ہو چکے ہیں۔ جی ڈی اے کی مجبوری یہ ہے کہ وہ خود سات مختلف جماعتوں کا مجموعہ ہے جہاں مختلف سوچ کے افراد ایک جگہ جمع ہیں۔ جی ڈی اے کے تمام افراد ایک فیصد بھی حکومت کے ساتھ نہیں ہیں وہ صرف اور صرف اپنے وقت کا انتظار کر رہے ہیں۔ وہ صرف اپنے مفادات یا سیاسی ضروریات کی وجہ سے اتحاد کا حصہ ہیں لیکن قطعاً حکومت کے ساتھ نہیں ہیں۔ پاکستان تحریکِ انصاف کی بدقسمتی ہے کہ جو لوگ پی ٹی آئی کا حصہ بنے یا پھر وہ لوگ جو آزاد حیثیت میں انتخابات جیتنے کے بعد پاکستان تحریکِ انصاف کا حصہ بنے وہ سب پی ٹی آئی کے ساتھ نہیں ہیں اس سے بڑھ کر حیرانی کی بات ہے کہ اس کے باوجود حکومت چلتی جا رہی ہے۔ اتنی آزادی اور تعاون کے باوجود بھی اگر حکومت عوامی مسائل حل کرنے میں ناکام رہے اور پھر یہ بھی توقع کرے کہ آئندہ عام انتخابات کارکردگی کی بنیاد پر جیتے جائیں گے تو اسے بھی نئے پاکستان جیسا خواب ضرور کہا جا سکتا ہے لیکن اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے بھی خیالات کا اظہار کیا ہے۔ ان کا یہ موقف درست مان لیا جائے یا اس کی حمایت بھی کی جائے کہ کرپٹ افراد کے ساتھ بات چیت نہ کرنا بہتر ہے تو پھر محترم وزیراعظم آپ کے ساتھ کون سے فرشتے بیٹھے ہوئے ہیں جو آپکو کرپٹ لوگوں کے ساتھ بات چیت کرنے سے روک رہے ہیں۔ جمہوریت عوام کی خدمت کا نام ہے اگر پاکستان تحریکِ انصاف اچھی گورننس سے عام آدمی کے مسائل حل کرنے میں کامیاب ہو جائے تو محترم وزیراعظم آپ ملک بھر میں اپنی جماعت کو بنیادی سطح پر منظم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اگر آپ اپنی جماعت کو منظم کرنے میں کامیاب ہو جائیں اور ہر پاکستانی پی ٹی آئی کو اپنی جماعت سمجھنا شروع کر دے تو آئندہ انتخابات میں آپکو بیساکھیوں کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ ہر وقت لازم نہیں کہ چور چور کرپٹ کرپٹ کی گردان کی جائے ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ آپ بہتر افراد کو متبادل کے طور پر پیش کریں۔ اگر پاکستان تحریکِ انصاف عام آدمی کے مسائل حل نہ کرے اور اس کے ترجمان یا تنخواہ دار ہر وقت جنگ کا ماحول بنائے رکھیں تو یاد رکھیے ان حالات میں اگر مدت پوری کر بھی جائیں تو عام آدمی کا بھلا کہیں نہیں ہو سکے گا یہ وہی عام آدمی ہو گا جو آئندہ عام انتخابات میں بازی پلٹ دے گا بھلے آپ ڈالر کا ریٹ اسی روپے پر لے آئیں لیکن اس دوران جو تاثر قائم ہو چکا ہے اس سے نکلنا یا جان چھڑانا کسی کے بس میں نہیں ہو گا۔
میاں نواز شریف کو لاکھ برا کہیں، اسے کرپٹ کہیں، چور کہیں یا ہارس ٹریڈنگ کا موجد کہیں یا چھانگا مانگا کی سیاست کا بانی قرار دیں لیکن یہ ضرور دیکھیں کہ میاں برادران نے انیس سو پچاسی کے بعد جیسے بھی کام کیا لیکن اپنی جماعت کو نچلی سطح پر مضبوط بنانے کے لیے کام کرتے رہے اور آج اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے وہ دو ہزار میں ملک سے باہر گئے، موجودہ حکومت نے انہیں ایک مرتبہ پھر بیرون ملک روانہ کیا لیکن وہ اپنی سیاسی جماعت کو ایک بڑی سیاسی جماعت بنانے اور قائدانہ خوبیوں کو اجاگر کرتے ہوئے آج ملک میں اپنی اہمیت منوا چکے ہیں یہ کامیابی انہیں اپنی جماعت کو منظم کرنے کے نتیجے میں حاصل ہوئی ہے۔ آپ اپنے اردگرد نظر دوڑائیں اور دیکھیں کون ہے جو پاکستان تحریکِ انصاف کو نچلی سطح پر منظم کر کے ایک مضبوط سیاسی جماعت بنانا چاہتا ہے۔
جہاں تک تعلق کرپشن اور کرپٹ افراد کا ہے حکومت کیوں ادروں کو مضبوط کرنے کے ایجنڈے کے ساتھ آگے نہیں بڑھتی جتنا شور کرپشن اور کرپٹ افراد پر ہوا ہے جتنا سرمایہ اور وقت اس موضوع پر خرچ ہوا ہے اگر یہی وقت اداروں کو مضبوط بنانے اور انہیں جدید خطوط پر چلانے کے لیے صرف ہوتا تو حالات مختلف ہوتے۔ آپ اداروں کو اتنا مضبوط کیوں نہیں بناتے کہ ملکی خزانے کو نقصان پہنچانے والا کوئی کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو وہ قانون کے شکنجے سے نہ بچ سکے۔ آپ اداروں کو مضبوط بنائیں بدقسمتی سے اس کے بجائے جس انداز میں مداخلت ہو رہی ہے گرفتاریاں ہو رہی ہیں اور کمیٹیاں قائم ہو رہی ہیں اس کے بعد تو کرپشن کے خاتمے اور اعلیٰ گورننس کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتے دکھائی نہیں دیتا۔
کسانوں کے ساتھ جو ہوا ہے کیا وہ کسی ظلم سے کم ہے۔ اب اس کا تعین کون کرے گا کہ اس کارروائی میں پنجاب کے کون کون سے خیرخواہ اس سازش کا حصہ ہیں جنہوں نے اس معاملے کو ہوا دی ہے، کون ہیں جو عثمان بزدار کو ناکام بنانا چاہتے ہیں اور اپنی وزارتیں سیدھی کرنا چاہتے ہیں یا پھر وزارتِ اعلیٰ کی دوڑ میں شامل ہونا چاہتے ہیں ایسے افراد کسی اور نہیں پاکستان تحریکِ انصاف سے ہیں۔ گنے کے کاشتکاروں کا مطالبہ آپ مان نہیں سکتے لیکن گندم اپنے ملک سے مہنگی گندم بیرون ملک سے منگوا سکتے ہیں۔ اگر حکومت گنے کے کاشتکاروں کو سستا پانی، بجلی، کھاد اور ٹرانسپورٹ فراہم نہیں کر سکتی تو ان کی فصل کا ریٹ کیسے مقرر کر سکتی ہے۔ کسانوں کے معاملے پر بیان جاری کرنے والے کتنے افراد جانتے ہیں کہ اخراجات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے اگر اخراجات کو بوجھ کم نہیں کر سکتے تو طاقت کے زور پر من پسند قیمت کیسے مقرر کر سکتے ہیں۔ اس لیے بنیادی مسائل حل کرنے کے لیے زمینی حقائق سمجھنے کی کوشش کریں۔
قاضی فائز عیسیٰ کے کیس میں لکھے جانے والے اختلافی نوٹ بھی حکومت کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں۔ جب حکومت ایسے کاموں میں الجھی رہے گی، کابینہ کی توجہ یا تو مخالفین کے بیانات کا جواب دینے یا پھر عدلیہ کے ساتھ محاذ آرائی پر ہو گی تو پھر نا مہنگائی کم ہو گی، نا ادویات کی قیمتوں میں کمی آئے گی نا اداروں کے معاملات بہتر انداز میں چلائے جا سکیں گے بس یہی ہو گا کہ دن گذرتے رہیں گے اور مدت پوری ہو جائے گی اور تحریک انصاف کا ووٹر نیا پاکستان ڈھونڈتا رہے گا۔