نواز شریف کی تقریر میں فوجی قیادت کا نام سن کر دھچکا لگا، ثبوت کا انتظار: بلاول
اسلام آباد+لاہور (نمائندہ خصوصی+بی بی سی +نامہ نگار) چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ فوجی قیادت کا نام لینا نواز شریف کا ذاتی فیصلہ تھا، نواز شریف کی تقریر میں براہ راست نام سنے تو دھچکا لگا، انتظار ہے وہ کب ثبوت پیش کریں گے۔ برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے بلاول بھٹو کا کہنا تھا پی ڈی ایم ایجنڈے کی تیاری کے وقت ن لیگ نے فوجی قیادت کا نام نہیں لیا تھا، اے پی سی میں اتفاق ہوا تھا کہ کسی ایک ادارے کا نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کہا جائے گا۔ چیئرمین پیپلزپارٹی کا کہنا تھا یہ میرے لیے ایک دھچکا تھا، عام طور پر ہم جلسوں میں اس طرح کی بات نہیں کرتے، نواز شریف کی اپنی جماعت ہے اور میں انہیں کنٹرول نہیں کرسکتا، نہ میں ان کو کنٹرول کرسکتا ہوں نہ وہ مجھے، ہمارا ایجنڈا اے پی سی میں طے پانے والی قرارداد میں واضح ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا میاں صاحب نے بغیر ثبوت کسی کا نام نہیں لیا ہوگا، کرونا کے باعث نواز شریف سے براہ راست ملاقات کا موقع نہیں ملا، نواز شریف سے ملاقات ضروری ہے تا کہ معاملے پر تفصیل سے بات کروں، حکومتوں میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کی تحقیق کیلئے کمیشن بنایا جائے۔ علاوہ ازیں چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے دیامر میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھٹو دور میں روزگار کے مواقع پیدا کئے گئے۔ قومی ادارے کھڑے کئے۔ بے نظیر نے ہر گاؤں میں لیڈی ہیلتھ ورکرز کا تحفہ دیا۔ آصف زرداری دور میں سی پیک کا انقلابی منصوبہ شروع کیا۔ آصف زرداری کے دور میں تنخواہوں میں 150 فیصد اضافہ کیا گیا۔ سرحدوں کے محافظوں کی تنخواہوں میں 175 فیصد اضافہ کیا گیا۔ پیپلزپارٹی کے دور میں پنشن میں 100 فیصد اضافہ ہوا۔ پندرہ نومبر کے بعد گلگت بلتستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت بننے والی ہے۔جنوری کے بعد آپ لوگوں کی حکومت وفاق میں بھی بنے گی۔ پیپلز پارٹی کا ساتھ دو‘ ہم آپ کو حقوق دلائیں گے۔ کٹھ پتلی اپنا حق نہیں مانگ سکتا وہ آپ کو کیسے حقوق دلائے گا۔ کبھی بھی یوٹرن نہیں لوں گا۔ جو وعدہ کیا وہ نبھاؤں گا۔ کسی کو اجازت نہیں دیں گے کہ آپ سے سبسڈی چھینے۔ آج پاکستان کا ہر طبقہ احتجاج کر رہا ہے۔ اس کے جواب میں مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ نوازشریف جو بتا رہے ہیں وہ حقائق پر مبنی ہے، بلاول بھٹو کا نوازشریف سے متعلق بیان ان کی ذاتی رائے ہے۔ ترجمان ن لیگ نے بلاول بھٹو زرداری کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ نوازشریف جو کہتے ہیں اس کے گواہ قائد ن لیگ خود اور پاکستان کی عوام ہیں۔ سابق گورنر سندھ اور لیگی رہنما محمد زبیر نے بھی نوازشریف کا موقف واضح کیا، ان کا کہنا تھا کہ بلاول بھٹو ہمارے اتحادی ہیں انکی ذاتی رائے ہو سکتی ہے، 2013سے 2018 تک ن لیگ کی حکومت تھی، پیپلزپارٹی کی نہیں، ہم عدالت میں نہیں کہ ثبوت پیش کریں۔ سب سے پہلے سلیکٹڈ بلاول بھٹو نے کہا تھا ہم نے نہیں، اگر عمران خان سلیکٹڈ ہیں تو سلیکٹ کرنے والا کون ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم کہانیوں کی بنیاد پر بات نہیں کر رہے، پاکستان میں سویلین بالادستی کیلئے تحفظات کا اظہار پی ڈی ایم پلیٹ فارم سے کیا گیا۔ بلاول بھٹو زرداری کے انٹرویو پر ردعمل دیتے ہوئے سابق گورنر سندھ محمد زبیر کا کہنا تھا کہ بلاول بھٹو زرداری نے کراچی واقعہ کے بعد نواز شریف کی بات کی تائید کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ جو اظہار نواز شریف نے کیا تھا وہ کہانی کی بنیاد پر نہیں تھا بلکہ حقائق تھے، نواز شریف نے گوجرانوالہ جلسے میں جو کہا تھا وہ ہمارے حکومتی تجربات ہیں، جو تجربات ہمارے ہیں وہ پیپلز پارٹی کے نہیں ہیں۔ ترجمان مسلم لیگ ن مریم اورنگزیب نے بلاول بھٹو زرداری کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ چیئرمین پیپلز پارٹی کی ذاتی رائے ہے، لیکن نواز شریف جو بتا رہے ہیں وہ حقائق پر مبنی ہے، اس حقیقت کے گواہ قائد نواز شریف خود اور پاکستان کے عوام ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری نے بی بی سی کو دیئے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں پر مشتمل اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ اور گلگت بلتستان میں انتخابی مہم سے متعلق بات چیت کی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ پی ڈی ایم کے ایجنڈے کی تیاری کے وقت نواز لیگ نے کسی کا نام نہیں لیا تھا انہوں نے مزید بتاتے ہوئے کہا کہ وہاں (اے پی سی میں) یہ بحث ضروری تھی کہ الزام صرف ایک ادارے پر لگانا چاہیے پوری اسٹیبلشمنٹ پر لگانا چاہئے اور اس پر اتفاق ہوا تھا کہ کسی ایک ادارے کا نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کہا جائیگا، بلاول بھٹو زرداری کہتے ہیں کہ جب انہوں نے گوجرانوالہ کے جلسے میں میاں نواز شریف کی تقریر میں براہ راست نام سنے تو انہیں دھچکا لگا۔ اے پی سی پیچھے رہ گئی نواز شریف کی تقریر بہت آگے نکل گئی۔ بلاول بھٹو نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا ہرگز یہ مطالبہ نہیں ہے کہ فوجی قیادت عہدے سے دستبردار ہو جائے۔ میں یہ واضح کر دوں کہ یہ نہ تو ہماری قرارداد میں مطالبہ ہے نہ ہی یہ ہماری پوزیشن ہے۔ جہاں تک بات نام لینے کی ہے، میں یہ طریقہ کار خود اپنی جماعت کے لیے نہیں اپناتا کہ میں جلسوں میں براہِ راست الزام کو بیان کرتا۔ مگر میاں صاحب کا یہ حق ہے کہ وہ اس قسم کا موقف لینا چاہیں تو ضرور لیں۔ بلاول بھٹو زرداری نے فوجی قیادت کا نام لینے یا اْن پر براہ راست الزام لگانے کو نواز شریف اور مسلم نواز کا ’ذاتی اور پارٹی کا فیصلہ‘ قرار دیا۔ بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ’جہاں تک میاں نواز شریف کا تعلق ہے تو وہ تین بار وزیر اعظم رہے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ انھوں نے واضح اور ٹھوس ثبوت کے بغیر نام نہیں لیے ہوں گے۔ یہ ایسا الزام نہیں ہے کہ آپ ایک جلسے میں کسی پر بھی لگا دیں۔ ابھی مشکل یہ پیش آئی ہے کہ کووڈ کی وبا کے باعث نواز شریف سے براہِ راست ملاقات کا موقع نہیں ملا، جو کہ بہت ضروری ہے، تاکہ میں ان سے ملاقات کروں اور اس معاملے پر تفصیل سے بات کروں۔ مگر مجھے انتظار ہے کہ میاں صاحب ثبوت سامنے لائیں گے یا پیش کرنا چاہیں گے۔ لیکن اے پی سی کے اجلاس کے دوران میں نے ہی یہ شکایت کی تھی کہ جس طرح پولنگ سٹیشنز کے اندر اور باہر فوج کی تعیناتی قابلِ مذمت ہے، بالکل اسی طرح، مثال کے طور پر، ہمارے چیف جسٹس کا ڈیم فنڈ کی مہم پر نکلنا یا ان کی الیکشن کے دن کچھ سرگرمیاں قابلِ مذمت ہیں۔ اس لیے یہ ایک وسیع معانی رکھنے والا لفظ ہے اور آپ کسی ایک شخص کی طرف اشارہ نہیں کر سکتے۔ مگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی واضح ہو کہ جلسوں میں اس پر بات نہیں کی جائے گی۔انھوں نے کہا کہ وہ اور ان کی جماعت آل پارٹیز کانفرنس کے دوران تشکیل پانے والے ایجنڈے پر مکمل طور پر قائم ہے۔ پی ڈی ایم کے حالیہ جلسوں کے دوران نواز شریف سمیت متعدد مقررین کی جانب سے کہا جاتا رہا ہے کہ عمران خان کو اسٹیبلیشمنٹ کی مدد سے اقتدار ملا ہے اور یہ کہ سنہ 2018 کے عام انتخابات میں مبینہ طور پر دھاندلی ہوئی تھی۔ پی ڈی ایم کا مطالبہ ہے کہ ایک ایسا کمشن بنایا جائے جو جمہوری حکومتوں میں اسٹیبلیشمنٹ کے کردار کی تحقیق کرے اور ماضی اور موجودہ حکومت کی تشکیل میں اس کی مدد سے متعلق حقائق سامنے لائے۔ انھوں نے کہا کہ ملک جن مشکل حالات سے گزر رہا ہے اس میں دو ہی راستے ہیں، ایک تو یہ کہ ہم انتہا پسندانہ رویہ اختیار کریں اور ملک کو مزید مشکلات سے دوچار کر لیں جبکہ دوسرا یہ کہ ہم رکیں اور سوچیں کہ کس طرح آگے بڑھنا ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ترقی پسند جمہوریت ہی واحد راستہ ہے جبکہ کمزور جمہوریت آمریت سے کئی درجے بہتر ہے۔ انھوں نے ’ٹرتھ اینڈ ری کنسلیئیشن کمشن‘ کے قیام کا مطالبہ کیا اور کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی وہ جماعت ہے جس کے خلاف انتخابات میں دھاندلی کا سلسلہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی دھاندلی اور سول حکمرانی اور مضبوط جمہوریت کے لیے جدوجہد طویل اور تین نسلوں پر محیط ہے، اور اس کی بحالی کے لیے وہ جمہوری انداز میں کوشش جاری رکھیں گے۔انھوں نے کہا کہ پی ڈیم ایم کے پاس ابھی استعفوں کا آپشن بھی موجود ہے جبکہ دھرنے بھی دیئے جا سکتے ہیں۔ اس سوال پر کہ کیا پیپلز پارٹی احتجاجی سیاست کے ذریعے ایک منتخب حکومت گرانے پر یقین رکھتی ہے، بلاول بھٹو نے کہا کہ ان کی جماعت نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ جمہوری انداز میں مقصد حاصل کرنے کی حتی الامکان کوشش کی جائے۔ انھوں نے کہا کہ حکومت میں رہنے کا جواز عوام کا اعتماد ہوتا ہے اور یہ اعتماد موجودہ حکومت کھو چکی ہے۔ انھوں نے ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور گرتی معیشت کا الزام پی ٹی آئی پر لگاتے ہوئے اسے ایک نااہل حکومت قرار دیا۔ پی ڈی ایم کے کراچی میں جلسے کے بعد آئی جی سندھ کے مبینہ اغوا، ایف آئی آر کے لیے دباؤ، مریم نواز شریف کے شوہر کیپٹن(ر) صفدر کی گرفتاری اور مریم نواز کے کمرے کا دروازہ توڑ کر داخل ہونے کی کوشش کے معاملے پر بات کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ اس معاملے پر ان کا آرمی چیف سے دوبارہ رابطہ نہیں ہوا۔ مگریہ علم ہے کہ اس معاملے پر انکوائری چل رہی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس پر تحقیقات مکمل کی جائیں گی اور قصوروار افراد کا تعین کر کے انھیں سزا بھی دی جائے گی، میں اس وقت صبر سے انتظار کر رہا ہوں کہ مجھے اس انکوائری سے متعلق آگاہ کیا جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ مسلم لیگ ن کے امیدوار توڑ کر پی ٹی آئی نے اپنی جماعت میں شامل کیے ہیں اور ایسی ہی کوششیں ان کے امیدواروں کے ساتھ بھی کی گئیں مگر سوائے ایک شخص کے کوئی دوسرا پیپلز پارٹی چھوڑ کر کسی اور جماعت کا حصہ نہیں بنا۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ وہ پی ٹی آئی اور عمران خان پر زیادہ اعتبار نہیں کرتے کیونکہ عمران خان ’یوٹرن‘ لیتے ہیں۔’ہم نے دیکھا ہے کہ عمران اہنے ہر وعدے سے مکر جاتے ہیں۔ سنہ 2018 کے انتخابات سے پہلے انھوں نے جنوبی پنجاب کے لوگوں سے وعدہ کیا تھا کہ سو دن میں انھیں صوبہ بنا دیں گے، مگر یہ نہیں کیا۔ تو ہم انتظار کریں گے اور دیکھیں گے کیونکہ اگر وزیراعظم انتخابات سے قبل یوٹرن لے سکتے ہیں تو انتخابات کے بعد بھی لے سکتے ہیں۔‘انھوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے کئی وفاقی وزرا گلگت بلتستان کو علیحدہ صوبہ بنانے کی مخالفت کر چکے ہیں اور اس ضمن میں ان کی جماعت کی ایک پٹیشن سپریم کورٹ میں موجود ہے۔انھوں نے کہا کہ ان کی جماعت خود پارلیمان میں گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کی آئینی ترمیم لے کر جائے گی۔پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ نے بلاول بھٹو زرداری کے انٹرویو کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پی ڈی ایم پیپلز پارٹی کی اے پی سی کے نتیجے میں بنا، پی پی پی اے پی سی کے اعلامیے کے تمام نکات کے ساتھ کھڑی ہے جس میں سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کا خاتمہ بھی شامل ہے۔ قمر زمان کائرہ نے اپنے بیان میں کہا کہ میاں نواز شریف تین بار وزیراعظم رہے ہیں انہوں نے یقیناً ثبوتوں کی بنیاد پر نام لئے ہوں گے۔ جہاں تک نام لینے کا تعلق ہے تو بلاول بھٹو زرداری نے درست کہا کہ پی پی پی نے جب بھی نام لئے ثبوتوں کے ساتھ لیے۔ ہم نے ماضی میں عام اور ضمنی انتخابات میں نام لئے لیکن ان کے ہمارے پاس ثبوت تھے۔