امریکی انتخابات اور پاکستان
امریکہ میں صدارتی انتخاب کے نتائج سامنے آنے کے بعد ڈیموکریٹک امیدوار جوبائیڈن جیت کے انتہائی قریب پہنچ چکے ہیں۔ امریکی عہدہ صدارت پر براجمان ہونے اور وائٹ ہاؤس کا مہمان بننے کے لیے صدارتی امیدوار کو 270 الیکٹورل ووٹ درکار ہوتے ہیں۔ ڈیموکریٹک امیدوار جوبائیڈن نے 264 اور ری پبلکن امیدوار امریکی صدر ٹرمپ نے اب تک 214 الیکٹورل ووٹ حاصل کیے ہیں۔جوبائیڈن مشی گن سے 16 الیکٹورل ووٹ لے کر کامیاب ہوگئے ہیں جس کے بعد ان کے ووٹوں کی تعداد 264 ہوگئی ہے اور اس طرح جوبائیڈن کو وائٹ ہاؤس تک پہنچنے کے لیے صرف 6 ووٹ درکار ہیں جبکہ 17 الیکٹورل حلقوں میں وہ آگے جارہے ہیں۔ ایری زونا میں جوبائیڈن آگے جارہے ہیں۔ ٹرمپ پنسلوینیا، شمالی کیرولائنا، جارجیا اور الاسکا میں بھی برتری حاصل کررہے ہیں۔ امریکی میڈیا کے مطابق ڈیموکریٹس نے ریاست ایریزونا میں کامیابی حاصل کرلی ہے جہاں سے 2016ء کے انتخابات میں ٹرمپ کامیاب ہوئے تھے۔ ریاست اوہائیو سے ٹرمپ نے 18 الیکٹورل ووٹ حاصل کر لیے اور ٹیکساس سے انہیں 38 الیکٹورل ووٹ ملے ہیں۔امریکہ میں حکمرانی کیلئے 538 میں سے 270 الیکٹورل ووٹ درکارہوتے ہیں۔ٹرمپ نے انتخابی نتائج کو نہ تسلیم کرنے کااعلان کرتے ہوئے امریکی سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا دیا ہے۔ اس سے قبل آخری بار 2000 کے امریکی صدارتی الیکشن میں معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا تھا جب بش کے مقابلے میں الگور نے نتائج کو چیلنج کیا تھا اور پورے ملک میں دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیا تھا لیکن عدالت نے صرف فلوریڈا ریاست میں دوبارہ گنتی کرائی تھی جس میں بش فاتح رہے تھے۔ لیکن ہو سکتا ہے کہ ان سطور کے شائع ہونے تک امریکی صدارتی الیکشن کے نتائج واضح ہو جائیں اور پوری دنیا کو معلوم ہو جائے گا کہ امریکہ میں اگلے چار سال ٹرمپ کی حکمرانی چلے گی یا جو بائیڈن کرسی صدارت پر فائز ہوں گے۔ امریکی الیکشن میں جس طرح پوری دنیا دلچسپی رکھتی ہے اس طرح پاکستان میں بھی لوگ امریکی الیکشن کا بغور جائزہ لیتے ہیں کیوں کہ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ امریکہ اس وقت دنیا بھر میں سپر پاور کا درجہ رکھتا ہے اور ہر ملک کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ امریکہ سے اپنے تعلقات قائم کرے یا ان کو مضبوط کرے تا کہ عالمی منظر نامے میں اس کو پذیرائی مل سکے اور بین الاقوامی سطح پر اسے کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ جہاں تک پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی بات ہے تو یہ ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہے۔ ساٹھ کی دہائی کے بعد جب امریکہ کو چین کے ساتھ تعلقات بنانے کیلئے کسی سیڑھی کی ضرورت تھی تو پاکستان کا استعمال کیا گیا اور پاکستان ہی کی وساطت سے اس وقت کے امریکی سیکرٹری خارجہ ہنری کسنجر نے چین کا خفیہ دورہ کیااور جب ابھرتی ہوئی طاقت چین کے ساتھ امریکہ کے تعلقات قائم ہو گئے تو امریکہ نے پاکستان کو حسب معمول بھلا دیا۔ پھر افغان وار میں پاکستان کا کندھا چاہئے تھا تو امریکہ بہادر کو پھر پاکستان کی یاد آئی اور گیارہ سال تک پاک امریکہ تعلقات تاریخ میں بلند ترین سطح پر تھے اس کے بعد جمہوری ادوار میں ایک بار پھر پاکستان کو امریکہ نے بھلا کر بھارت سے پینگیں بڑھانا شروع کر دیں۔ مشرف دور میں ایک بار پھر پاک امریکہ تعلقات عروج پر تھے کیوں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کو پاکستان کی ضرورت تھی۔لیکن اب امریکہ بھی پاکستان کی پہلی ترجیح نہیں رہا اور نہ ہی ہونا چاہئے کیوں کہ چین جو پاکستان کا ہمسائیہ بھی ہے عالمی سطح پر ایک معاشی طاقت بن چکا ہے۔ اس تمام عرصے میں پاکستان کے چین کے ساتھ تعلقات خاصے مضبوط ہوئے ہیں۔پاکستان چین کی مدد سے سی پیک کے تحت بہت سے منصوبے شروع کر رہا ہے گوادر بندر گاہ آپریشنل ہو رہی ہے، ون بیلٹ ون روڈ کے چینی منصوبے کا پاکستان اہم حصہ ہے جس کا اس وقت امریکہ کو بہت غم و غصہ ہے اور آئے روز امریکہ پاکستان کو اس منصوبے سے جدا کرنے کیلئے سازشیں اور دباؤ بھی استعمال کرتا ہے۔ ٹرمپ دور میں پاک امریکہ تعلقات اس طرح پروان نہ چڑھ سکے بلکہ ٹرمپ مودی کو اپنا دوست مانتے رہے،کشمیر پر ثالثی کی بات کی لیکن عملی کام صفر رہا الٹا بھارت کے ساتھ بیسک ایکسچینج اینڈ کوآپریشن ایگریمنٹ کر لیا ہے جس کے تحت امریکہ انڈیا کو جیوسپیشیل انٹیلی جنس یعنی سیٹلائٹ کے ذریعے حاصل کی جانے والی خفیہ جغرافیائی معلومات فوراً فراہم کرے گا۔اگرچہ اس سے قبل بھی انڈیا کے پاس سیٹلائٹ کے ذریعے معلومات حاصل کرنے کا نظام موجود ہے تاہم یہ ابھی مکمل طور پر فعال نہیں اور اس کا نشانہ اتنا درست نہیں جتنا امریکی مدد سے ہو سکتا ہے۔اس طرح کے معاہدے کر کے ٹرمپ نے پاکستان مخالف ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ اب تک کے حالیہ نتائج سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا دور اب اختتام کے قریب ہے اور ڈیمو کریٹک امیدوار جو بائیڈن امریکہ کے متوقع اگلے صدر ہو سکتے ہیں پاکستان کو اب ان کے ساتھ تعلقات استوار کرنے چاہئیں اور ابھی سے لابنگ کرنی چاہئے تا کہ امریکہ خطے میں پاکستان کیلئے مزید مشکلات پیدا نہ کر سکے۔امریکہ کے ساتھ تعلقات کو بڑھاتے ہوئے پاکستان کو چین کو بھی نہیں بھولنا چاہئے جو پاکستان کا حقیقی معنوں میں دوست ہے جو پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری لے کر آیا ہے۔چین نے پاکستان کے ساتھ ہمیشہ دوستی نبھائی اور ہر کڑے وقت میں پاکستان کی مدد کی ہے۔ چین نے ٹیکنالوجی، ہتھیار اور سرمایہ کاری کی فراہمی اور مختلف بحرانوں سے نکلنے میں پاکستان کی مدد کی ہے اور یہ تعلقات ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید پروان چڑھ رہے ہیں جس میں پاکستان کی سیاسی اشرافیہ کے ساتھ فوجی قیادت کا بھی اہم کردار ہے جو پاک چین تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کیلئے دن رات ایک کر رہے ہیں۔چین اور پاکستان کی یہ دوستی بھارت کو بھی کھٹکتی رہتی ہے اس لئے بھارت نے سی پیک کی مخالفت کی اور چین کی پیشکش کے باوجود اس منصوبے کا حصہ بننے سے انکار کیا۔ مستقبل میں بھی پاکستانی حکومتوں کو چاہئے ہو گا کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات ضرور قائم کریں لیکن اس دوران چین کا دامن تھام کر رکھیں تا کہ پاکستان بھارت جیسے موذی دشمن کا مقابلہ کھلے دل کے ساتھ کر سکے جو امریکہ کے ساتھ سیٹلائٹ معاہدہ کر کے اترا رہا ہے۔