حکومت کو مہنگائی ‘ بے روزگاری پر قابو پانا اپنی اولین ترجیح بناناہوگی
وزیراعظم کے ظہرانے میں حکومتی اتحادیوں کے گلے شکوے اور مسلم لیگ (ق) کی عدم شمولیت
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے دیئے گئے ظہرانے میں حکومتی اتحادیوں نے گزشتہ روز شکایات کے انبار لگا دیئے۔ اس ظہرانے میں حکومتی اتحادی جماعتوں اور اتحادوں ایم کیو ایم پاکستان‘ جی ڈی اے‘ بی اے پی اور جمہوری وطن پارٹی کے وفود سمیت وفاقی وزرائ‘ پنجاب‘ خیبر پی کے اور بلوچستان کے وزراء اعلیٰ اور سندھ و خیبر پختونخواہ کے گورنروں نے شرکت کی جبکہ حکومتی اتحادی مسلم لیگ (ق) نے ظہرانے میں شرکت سے معذرت کرلی۔ اس سلسلہ میں چودھری مونس الٰہی نے اپنا پیغام ٹویٹ کیا حکومت کے ساتھ طے پانے والے ہمارے معاہدے میں حکومتی کھانوں میں شمولیت شامل نہیں ہے۔
ظہرانے کے دوران وزیراعظم عمران خان نے وفاقی وزراء اور اتحادی جماعتوں کے وفود سے ملکی معاشی اور سیاسی صورتحال پر تبادلۂ خیال کیا اور کہا کہ ہم تمام لوگ پاکستان کو بہتر بنانے کیلئے یکجا ہیں جبکہ اپوزیشن ملک کو نقصان پہنچانے پر تلی ہوئی ہے۔ اپوزیشن مجھے بلیک میل کرنے کی پوری کوشش کررہی ہے مگر میں نہ بلیک میل ہوتا ہوں نہ دبائو میں آتا ہوں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اتحادی جماعتوں نے حکومت کے ساتھ یکجہتی کا اظہار بھی کیا اور روزافزوں مہنگائی کے حوالے سے شکایات کے انبار بھی لگائے جبکہ انہوں نے ترقیاتی فنڈز اور میگا پراجیکٹس نہ دیئے جانے پر بھی تحفظات کا اظہار کیا۔ ذرائع کے مطابق وزیراعلیٰ بلوچستان اور بلوچستان عوامی پارٹی کے سربراہ جام کمال نے وفاقی حکومت کی جانب سے وعدوں کی تکمیل نہ ہونے کی شکایت کی۔ اسی طرح سندھ سے اتحادی جماعتوں کے قائدین کا کہنا تھا کہ سندھ کے ہر محکمے میں صرف پیپلزپارٹی کا کنٹرول ہے‘ سندھ کی بیوروکریسی وفاق کے منصوبے بھی پیپلزپارٹی کی مرضی سے چلا رہی ہے۔ انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ حکومت وفاقی منصوبوں پر اتحادی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلے۔ فنگشنل لیگ کے سربراہ پیرپگارا نے اندرون سندھ کے عوام کو نظرانداز کرنے پر تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ ہم اتحادی ہیں مگر حکومت اس کا ثبوت نہیں دے رہی۔ وفاقی وزیر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے بھی اندرون سندھ کو نظرانداز کرنے پر تحفظات کا اظہار کیا جبکہ ایم کیو ایم کیجانب سے کراچی ٹرانسفارمیشن پلان پر عملدرآمد کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا گیا۔ اس موقع پر وزیراعظم نے اتحادی جماعتوں کو یقین دہانی کرائی کہ مہنگائی اور حلقوں کے مسائل کا انہیں خود بھی احساس ہے۔ انکے بقول ہر جگہ مافیا بیٹھا ہے جو تبدیلی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ اب ہماری پوری توجہ عوامی فلاحی منصوبوں پر مرکوز ہے۔
وزیراعظم عمران خان اور انکی پارٹی تحریک انصاف کو عوام نے 2018ء کے انتخابات میں بے شک وفاقی اور صوبائی حکمرانی کا مینڈیٹ دیا ہے تاہم اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ تحریک انصاف کو سوائے خیبر پختونخواہ کے وفاق اور صوبوں میں سنگل مجارٹی پارٹی کی حیثیت حاصل نہیں ہو سکی تھی۔ چونکہ حکومت کی تشکیل کیلئے پی ٹی آئی کو وفاق‘ پنجاب اور بلوچستان میں سادہ اکثریت حاصل نہیں تھی اس لئے حکومت سازی کے عمل میں بعض دوسری جماعتوں اور آزاد حیثیت میں منتخب ہونیوالے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کی حمایت حاصل کرنا پی ٹی آئی کی مجبوری بن گیا۔ بے شک عمران خان کو انکے نئے پاکستان کے نعرے کے ماتحت کرپشن فری سوسائٹی کی تشکیل اور عوام کے روٹی روزگار کے گھمبیر مسائل کے حل کے منشور کی بنیاد پر عوامی مینڈیٹ ملا تاہم انکی اتحادی جماعتوں کی اپنی ترجیحات ہیں جو ترقیاتی منصوبوں میں مناسب حصہ نہ ملنے اور مہنگائی میں روزافزوں اضافے کا باعث بننے والی حکومتی پالیسیوں سے اکثر اوقات شاکی ہی نظر آئی ہیں۔ بالخصوص مسلم لیگ (ق) کی قیادت کی جانب سے حکومت کی بعض قومی پالیسیوں پر بھی تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔ اگر حکومتی اتحاد میں شامل ہونے کے باوجود مسلم لیگ (ق) وزیراعظم کے اہتمام کردہ کھانوں میں شریک نہیں ہوتی اور وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ اس امر کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ ہماری پارٹی قیادت کے تحفظات ہیں جن کا ازالہ نہیں کیا گیا اور نہ ہی فیصلہ سازی کے کسی عمل میں ہمیں شریک کیا جاتا ہے تو اس اہم اتحادی جماعت کی حکومتی کھانوں میں عدم شمولیت محض اتفاقی نہیں ہو سکتی بلکہ اسکی قیادت کی جانب سے حکومت کے پالیسی معاملات پر باقاعدہ تحفظات کا اظہار کرکے وزیراعظم کے کھانے میں شریک نہ ہونے کا اعلان کیا جاتا ہے۔
بے شک منتخب ایوانوں میں حکومتی اتحادی حکومت کے پالیسی معاملات کے ساتھ یکجہت ہیں تاہم حکمران پی ٹی آئی کی جانب سے انکے تحفظات کو درخوراعتناء نہ سمجھا گیا تو کچھ لو اور کچھ دو کی سیاست میں اتحادیوں کی بیساکھیوں پر کھڑی حکومت کیلئے مشکلات بھی پیدا ہو سکتی ہیں جس کیلئے اس وقت حکومت مخالف اتحاد پی ڈی ایم کی جانب سے ایڑی چوٹی کا زور بھی لگایا جارہا ہے جبکہ حکومت مخالف تحریک میں پی ڈی ایم نے ہائوس کے اندر سے تبدیلی کا آپشن بھی اپنے ایجنڈے میں شامل کیا ہوا ہے۔ یہ بھی امر واقع ہے کہ پی ٹی آئی اور اسکے اتحادیوں کے اقتدار کے دو سال سے زائد عرصے کے دوران عوام کے غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے مسائل کم ہونے کے بجائے مزید گھمبیر ہوئے ہیں جس پر عوام الناس کی اکثریت مضطرب اور برافروختہ ہے اور تہیۂ طوفان کئے بیٹھی نظر آتی ہے۔ اس صورتحال میں عوام کو حکومت مخالف تحریک کے اپنے حق میں استعمال کرنا اپوزیشن کیلئے زیادہ آسان ہے جس کا پی ڈی ایم کے تین پبلک جلسوں میں عملی مظاہرہ بھی ہو چکا ہے۔
کرپشن فری سوسائٹی کے حوالے سے وزیراعظم کی سیاست بے شک انکی اصولی سیاست ہے مگر عوام کو اس وقت اپنے گھمبیر ہوتے روٹی روزگار کے مسائل کے فوری حل سے ہی سروکار ہے جس کی جانب حکومت ابھی مکمل متوجہ نظر نہیں آرہی۔ اس حوالے سے اگر وزیراعظم خود مافیا کے آگے حکومتی بے بسی کا اظہار کر رہے ہیں تو اس سے حکومتی رٹ کمزور ہونے کا تاثر ہی تقویت پائے گا۔ یہ تاثر حکومتی اتحادیوں کی سطح پر بھی قائم ہوگا تو پھر اعداد و شمار کے الٹ پھیر میں اقتدار کے ایوانوں میں پانسہ پلٹ بھی سکتا ہے اس لئے وزیراعظم اور انکی حکومت کو جہاں روٹی روزگار کے مسائل میں الجھے عوام کو مطمئن کرنا ہے وہیں انہیں اپنے اتحادیوں کو بھی ساتھ لے کر چلنا ہوگا جس کیلئے انکے تحفظات کا ازالہ ضروری ہے جبکہ انکے یہ تحفظات بھی عوامی مسائل ہی سے متعلق ہیں۔
وزیراعظم کو اب بہرصورت مہنگائی پر قابو پانے کی کوئی ٹھوس اور مؤثر پالیسی طے کرنا ہوگی اور اسی طرح بے روزگاری کے عفریت پر بھی قابو پانا ہوگا بصورت دیگر حکومتی اتحادیوں کے بڑھتے ہوئے تحفظات حکومتی بساط الٹانے کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔