کرونا: حکومت جلسے نہیں کریگی، گندم کی امدادی قیمت 1650روپے من: وفاقی کابینہ
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ سبسڈی اور گرانٹس کا اصل حق دار غریب طبقہ ہے۔ اس وقت سبسڈی امیر اور غریب دونوں کو یکساں میسر ہے۔ وزیراعظم نے ہدایت کی کہ ٹارگٹڈ سبسڈی کا ایسا طریقہ کار وضع کیا جائے جس کا فائدہ خصوصاً غریب طبقے اور پسماندہ علاقوں کو ملے۔ موجودہ حکومت کی یہ بڑی کامیابی ہے کہ شیڈیولڈ بینکوں میں سرکاری اداروں کے ڈیپازٹس کو سٹیٹ بینک منتقل کیا گیا جس سے خاطر خواہ بچت ہوئی۔ وزیر اعظم نے ہدایت کی کہ تمام شعبوں کا تفصیلی جائزہ لیا جائے جن میں غرباء اور پسماندہ علاقوں کو ٹارگٹڈ سبسڈی دی جاسکتی ہے اور جامع منصوبہ بمعہ عمل درآمد کی مدت کے ساتھ پیش کیا جائے۔ وفاقی کابینہ نے گندم کی امدادی قیمت فی من 1650 روپے مقرر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ کرونا کی صورتحال کے پیش نظر وفاقی کابینہ نے اصولی فیصلہ کیا کہ حکومت کی جانب سے اس دوران کوئی عوامی اجتماع منعقد نہیں کیا جائے گا۔ یہ بات وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات سینیٹر شبلی فراز نے وفاقی کابینہ اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ منگل کو وفاقی کابینہ کا اجلاس وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات نے کہا کہ ہم نے عوام اور کسان دونوں کا خیال رکھنا ہے تاکہ عوام کو مہنگا آٹا نہ ملے اور کسانوں کو بھی مناسب قیمت ملنی چاہیے۔ کسانوں کے لیے 100 روپے کا اضافہ کیا گیا ہے جس سے ان کی بنیادی قیمت کم ہوگی جس سے کسان بھی خوش ہوں گے اور عوام بھی خوش۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات نے کہا کہ آٹے کی قیمت میں اضافہ اور بحران میں سندھ کا طریقہ کار بڑا غلط تھا کیونکہ انہوں نے اپنے عوام کو مجبور کیا کہ وہ مہنگا آٹا خریدیں اور اس کے اثرات دیگر صوبوں میں بھی محسوس کئے گئے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ نے گندم بھی جاری نہیں کی، قیمت بھی اپنی مرضی کی رکھی ہے۔ حالانکہ پچھلے سال انہوں نے ایک دانہ نہیں خریدا لیکن وفاق نے پاسکو سے ان کو 7 لاکھ ٹن کے قریب گندم دی۔ سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ سندھ اب بھی معیار کے مطابق گندم جاری نہیں کررہا ہے۔ اس سے قیمتوں میں فرق پڑا اور گندم پیدا کرنے والا بڑا صوبہ پنجاب جہاں کم قیمت پر آٹا مل رہا تھا سے رسد میں مسائل آئے۔ اس وقت عالمی مارکیٹ میں گندم کی قیمت بلند سطح پر ہے جبکہ حکومت سندھ جو قیمت دے رہی ہے وہ عالمی قیمت سے بھی زیادہ ہے۔ کابینہ اجلاس میں زیر بحث آنے والے موضوعات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سبسڈیز پر بھی بات ہوئی۔ ملک میں گزشتہ 50 برسوں سے بدقسمتی سے کوئی ایسے اقدامات نہیں کئے گئے۔ آج کا خیال رکھا گیا اور کل کے بارے میں آنے والی حکومت جانے گی۔ اس حکمت عملی نے ہمارے ملک کو نقصان پہنچایا، جس میں سبسڈیز بھی ہیں۔ ہمارے سرمائے اور اخراجات کو دیکھیں تو نظر آئے گا کہ ہم قرض اور اس کا سود ادا کریں تو وہ اسی کو پورا کرے گا۔ جبکہ دفاع اور حکومت چلانے سمیت جو بھی کام ہو رہا ہے وہ قرض پر ہو رہا ہے۔ کروڑ پتی شخص کو بھی گندم، بجلی، گیس اور دیگر چیزوں پر وہی سبسڈی مل رہی ہے، ایک غریب آدمی کو بھی وہی ملتی ہے۔ جو اعداد وشمار ہم نے دیکھے ہیں، اس سے پوری کابینہ کو تعجب بھی ہوا کیونکہ 4 کھرب سے زائد سبسڈیز دی جارہی ہیں اور اس قسم کی سبسڈیز کی تقسیم کے لئے طریقہ کار بنایا جائے تاکہ حق دار تک پہنچیں۔ انہوں نے کہا کہ اس پر سنجیدگی سے کام شروع کیا گیا ہے اور اس کے لئے احساس اور دیگر دستاویزات استعمال کررہے ہیں اور اسی کی بنیاد پر اپنی حکمت عملی بنائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اجلاس میں کووڈ-19 پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ اللہ کے فضل سے ہم نے جو حکمت عملی بنائی اس سے ہمیں کم نقصان ہوا۔ انہوں نے کہا کہ جوں جوں سردی بڑھ رہی ہے، اس کی شرح اوپر جا رہی ہے اور اب 5 فیصد تک پہنچ گئی ہے، اسی طرح اموات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور بدقسمتی سے روزانہ 23 افراد کی اموات ہو رہی ہیں۔ ہم نہیں چاہتے ہیں کہ لوگوں کی جانیں جائیں اور جو معیشت بہتر ہوئی ہے اس پر کوئی اثر پڑے، اس لئے روزگار اور صنعتوں کے علاوہ دیگر شعبوں میں سختی کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ کیسز بڑھتے جا رہے ہیں، خدانخواستہ ہسپتالوں میں جگہ کم نہ پڑ جائے۔ ہم ٹارگٹڈ سبسڈی دیں گے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ میریٹ ہوٹل میں رہنے والے کو بھی سبسڈی ملے۔ ماضی کی حکومتوں نے سسٹم کو بہتر نہیں کیا جس وجہ سے غریب آدمی کی زندگی اجیرن ہوئی۔ معاون خصوصی برائے محصولات ڈاکٹر وقار مسعود نے کابینہ کو سبسڈی اور گرانٹس کے طریقہ کارکو معقول بنانے کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دی۔ کابینہ کو پچھلے 13سال کے محصولات و اخراجات، سبسڈی اور گرانٹس کا تقابلی جائزہ پیش کیا۔کابینہ کو بتایا گیاکہ اوسطاً قرضوں کی ادایئگیوں کی وجہ سے اخراجات کی شرح محصولات سے زیادہ رہی ہے۔ معاون خصوصی نے بتایاکہ اس وقت تقریباً معیشت کے بیشتر شعبوں بشمول توانائی،زراعت، صنعت اور دیگر شعبوں میں سبسڈی اور گرانٹس دی جارہی ہیں جن کی وجہ سے قومی خزانہ پر بے جا بوجھ پڑ رہا ہے۔ اس وقت سبسڈی اور گرانٹس کا کل حجم جی ڈی پی کا4.5 فیصد ہے۔ ٭کابینہ نے ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان کو جغرافیائی انڈیکیشن رجسٹریشن کے تحت رجسٹرڈ کرنے کی حیثیت دینے کی منظوری دی۔ یہ منظوری پاکستان کی پیداوار اور مصنوعات کو دنیا میں الگ شناخت دلوانے کیلئے دی گئی ہے۔ پاکستان کی مخصوص پیداوارو مصنوعات بشمول باسمتی چاول، کینو، آم، اجرک، کٹلری وغیرہ ملک کی جغرافیائی شناخت سے منسلک ہیں اور انہی کی بدولت پاکستان کے برآمدات کی منفرد پہچان ہے۔ کابینہ نے اقتصادی رابطہ کمیٹی کے 28 اکتوبر2020 کو منعقدہ اجلاس میں لیے گئے فیصلوں کی توثیق کی۔کابینہ نے گندم کی فصل کی امدادی قیمت 1650روپے فی 40 کلو گرام بوری مقرر کرنے کی منظوری دی۔کابینہ نے کمیٹی برائے توانائی کے مورخہ29 اکتوبر2020 کو منعقدہ اجلاس میں لیے گئے فیصلوں کی توثیق کی۔کابینہ نے سعودی عرب حکومت کی طرف سے تجویز کردہ ڈیجیٹل کواپریشن آرگنائزیشن کے قیام کی اصولی منظوری دی۔ اس ادارے کے قیام سے علاقائی ممالک کے مابین انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے کے فروغ میں مدد ملے گی۔وفاقی وزیر اسد عمر نے کابینہ کو کرونا وباء اور کے حوالے سے موجودہ صورتحال کے بارے آگاہ کیا۔ وزیراعظم نے قوم سے اپیل کی کہ احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں۔ ماسک کے استعمال کو یقینی بنایا جائے۔ وزیر اعظم نے این سی او سی کو ہدایت دی کہ اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے روزگار کو متاثر کیے بغیر لائحہ عمل مرتب کیا جائے۔
اسلام آباد (محمد نواز رضا۔ وقائع نگار خصوصی) باخبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں گندم کی امدادی قیمت پر وفاقی وزراء منقسم ہو گئے جس کے بعد وفاقی کابینہ نے گندم کی قیمت 1650 روپے فی من مقرر کردی۔ وزیراعظم نے ہدایت کی کہ ملک میں گندم اور آٹے کا کوئی بحران نہ ہو، عوام کے لئے آسانیاں پیدا کریں، مہنگائی میں کمی کے لیے اقدامات مزید تیز کیے جائیں، اجلاس میں انتہاپسندی اور تشدد کیخلاف قومی بیانیے پرعملدرآمد سے متعلق قومی کمیشن بنانے کی بھی منظوری دی گئی۔ وزیراعظم نے اپوزیشن کے بیانیے کیخلاف خود میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا\ جب وفاقی کابینہ کے جلاس میں حکومتی جلسے ملتوی کرنے کا اصولی فیصلہ ہوا تو وزیر دفاع پرویز خٹک نے کہا کہ رشکئی کا جلسہ کرلینے دیں، باقی بے شک منسوخ کردیں۔ وفاقی کابینہ نے جلسوں کی منسوخی سے متعلق اسد عمر کی تجویز سے اتفاق کیا جس کے بعد رشکئی کا جلسہ بھی منسوخ ہونے کا امکان ہے۔ گندم کی امدادی قیمت کے تعین پر 4 وزراء ایک طرف باقی تمام کابینہ دوسری طرف تھے۔ وفاقی کابینہ نے مختلف مد میں حکومتی سبسڈی کو سیاسی رشوت قرار دیا اور اربوں روپے ماہانہ کی سبسڈی کے رجحان کو جلد ختم کرنے پر اتفاق کیا۔ گندم کی امدادی قیمت کے تعین پر 4 وزراء ایک طرف باقی تمام کابینہ دوسری طرف رہی، چار وزراء کی جانب سے گندم کی امدادی قمیت 1800 روپے فی من مقرر کرنے کی حمایت کی گئی۔ وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی ندیم افضل چن نے بھی گندم کی قیمت 1800 روپے مقرر کرنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ گندم کی امدادی قیمت نہ بڑھائی تو گندم کم پیدا ہوگی۔ ذرائع کے مطابق وفاقی وزیر شیخ رشید نے گندم کی قیمت 1800 روپے مقرر کرنے کی مخالفت کی اور کہا کہ گندم 1800 روپے مقرر ہوئی تو دو ماہ میں گندم کی قیمت آسمان کو چھونے لگے گی، اعظم سواتی نے بھی گندم کی قیمت کے معاملے پر وزیر اعظم کے نکتہ نظر کی حمایت کی۔ اعظم سواتی نے وزیر اعظم سے اجازت لے کر کابینہ اجلاس میں کھڑے ہوکر بات کی اور کہا کہ آٹا مہنگا نہیں ہونا چاہیے، غریب لوگ کیسے خرید سکیں گے؟۔ گندم کی امدادی قیمت بڑھانے کے پیچھے بھی مافیا متحرک ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ملک مزید مہنگائی برداشت کرنے کا متحمل نہیں ہے، ایسے اقدامات اٹھائیں گے کہ گندم اور آٹے کا کوئی بحران نہ ہو، منہگائی میں کمی کے لئے ٹھوس اقدامات کریں گے۔