جمہوریت اکثریت کے نام پر آمریت
تعجب ہے کہ عوامی حلقوں میںبے چینی ،پریشانی ، بے سکونی ،بد اعتمادی اور نفرت کے بڑھتے ہوئے مناظر دیکھنے کے باوجود ہمارے سیاستدانوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ ان کی ہٹ دھرمیوں ،نادانیوں اور من مانیوں میں روز افزوں اضافہ ہوتا جا رہا ہے سیاسی اکھاڑ پچھاڑ میں انتہائی تھرڈ کلاس ڈائیلاگ بازی ،کھینچا تانی،جگت بازی اور بد اخلاقی‘ الغرض ہر قسم کی اخلاقی گراوٹ کا ایسا گھٹیامظاہرہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے کیونکہ ان شخصیات سے ایسے اعمال غیر شعوری طور پر سرز د نہیں ہوتے بلکہ وہ یہ سب کچھ مکمل ڈھٹائی سے کرتے ہیں اور شرمندہ بھی نہیں ہوتے جبکہ ایک محب وطن یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ کیا واقعتاً یہ ہی دنیا کی دوسری بڑی اسلامی ریاست ہے جسے اس لیے حاصل کیا گیا تھا کہ مسلمان اپنے جداگانہ تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے احکام الہی اور سنت نبویؐ کے مطابق زندگیاں گزار سکیں ۔۔وائے افسوس کہ وطن عزیز کو کوئی ایسا حکمران نہ مل سکا جو حلف میں کہے گئے الفاظ کا پاسدار بنتا اور موجودہ وسائل میں عوام الناس کی فلاح و بہبود کے لیے ایسے ترقیاتی اور تعمیری کام کرتا جس سے تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کے مقاصد پورے ہوتے بلکہ ہمارے ہاں تو اسمبلی اجلاس کا انعقاد بھی عوامی مسائل کا حل نکالنے کے لیے نہیں ہوتا بلکہ شنیدن ،گفتن،برخاستن کے مصداق سبھی حاضر ہوتے ہیں اور چلے جاتے ہیں ہاں مگر! جس طرح فائدہ نظر آئے اسی طرح کی زبان بولنے لگتے ہیں اور عوامی مسائل کو مل جل کر نان ایشوزبنا دیتے ہیں۔ عجب افراتفری کا عالم ہے کہ ایک طرف حکمرانوں کی شاہ خرچیاں ، پردہ پوشیاں اور نا دانیاں ہیں اور دوسری طرف اپوزیشن جماعتوں کی ریشہ دوانیاں اور چالاکیاں ہیں جو ہر جائز احتساب سے بھی بچ نکلتے ہیں یہ سب ایسے کمال کے موقع پرست ہیں کہ ان کا ایجنڈا پیسہ پھینک تماشا دیکھ بن چکا ہے اور ان سب نے مل کر پورے نظام کو بر باد کر رکھا ہے۔گو کہ ایک بار پھر بلے نے گلگت بلتستان میں سب کو پچھاڑ دیا ہے اور میڈیائی بابوں کی توقعات اور پیشین گوئیوں کے بر عکس اپوزیشن نے منہ کی کھائی ہے۔پانی ، بجلی کی لوڈ شیڈنگ اوربلوں نے عوامی مشکلات میںانتہائی اضافہ کر دیا ہے ،مہنگائی تو اس قدر تیز رفتار سے بڑھ رہی ہے کہ غریب تو غریب امیر بھی پریشان ہوچکا ہے،علاج پہنچ سے باہر ہو چکا ہے ،میرٹ کی دھجیاں یوں اڑ رہی ہیں کہ حق دار نا امید ہو چکے ہیں ،تعلق داروں کو کھلے عام عہدوں پر فائز کیا جاتا ہے اور اہلیت رکھنے والے جوتیاں چٹخاتے پھرتے ہیں۔تعمیراتی شعبوں میں کوئی نیا کام نہیں کیا گیا ،ٹوٹی پھوتی سڑکیں اور اجاڑ راستے سوالیہ نشان ہیں جبکہ حکمران فیتے پر فیتہ کاٹ رہے ہیں جبکہ ہم ہر گزرتے دن کے ساتھ کچھ نہ کچھ گنوا رہے ہیں اس پر قرضے بڑھتے جا رہے ہیں اور کسی کو نہیں معلوم کہ پیسہ کہاں لگ رہا ہے کیونکہ عوام کے لیے کچھ بھی ہوتا یا بنتا نظر نہیں آتا ماسوائے ہوائی قلعوں کے کہ جن کی کرچیاں عام آدمی کو لہو رلا رہی ہیں۔یہی تو سوال ہے کہ عوام نے جس جماعت کو بھاری مینڈیٹ کے ساتھ کامیاب کروایا وہی عوام جب اپنے مسائل کیلئے نکلتے ہیں یا سوال کرتے ہیں تو برداشت کریں کہ’’حشر ‘‘ اٹھانے کی کیا ضرورت ہے یہ وہی ہیںجن کی وجہ سے آپ محلوں میں راج کر رہے ہیں ، چالیس گاڑیوں کے قافلے کے ساتھ گھومتے ہیں بلکہ پوری مارکیٹیں بند کروا دی جاتی ہیں اور راستوں کو بند کر دیا جاتا ہے کہ شاہی سواری گزرنے والی ہے تو وہ سادگی کا درس اور ریاست مدینہ بنانے کا دعوی کیا ہوا ؟ کیا ریاست مدینہ کے ماڈل کو ہم نے ہی سمجھنا ہے جو ارد گرد بیٹھے ہیں انھیں کس نے سمجھانا اور عمل کروانا ہے ؟ کل آپ کہتے تھے آج میں کہتی ہوں کہ : ’’دیپ جس کا محلات میں ہی جلے ،چند لوگوں کی خوشیوں کو لیکر چلے ۔ایسے دستور کو ، صبح بے نور کو ، میں نہیں مانتا ، میں نہیں مانتا !‘‘مجھے کہنے دیجیے کہ آپ ہمیں کچھ بھی نہ دیں،روٹی کی فکر بھی چھوڑیں ، بجلی ،گیس ، پانی تک بھی فراہم نہ کریں ،مہنگائی بھی کم نہ کریں بلکہ جیسے سب چل رہا ہے سب چلنے دیں کہ ہم اذیت میں گزارا کر لیں گے مگر خدارا! ہمیںسرعام بے گناہ مرنے سے بچا لیں ، ہمیں بپھرے ہوئے ہجوم کے ہاتھوں زندہ درگور ہونے سے بچا لیں ، ہمارے بچوں کو سفاک درندوں کی درندگی کا شکار ہونے سے بچا لیں۔،ہماری بیٹیوں کو وحشیوں کی حیوانیت کا شکار ہونے سے بچا لیں ،ہماری بہنوں ، بیٹیوں اور مائوں کی عزتوں کے تحفظ کو یقینی بنا دیں ، ہمارے بھائیوں ، بیٹوں اور باپ کی جانوں کو سر پھرے ،بپھرے ہجوم اور اندھی گولی کا شکار ہونے سے بچا لیں ، ہمیں تاریک راہوں سے مارے جانے سے بچا لیں ، ہمیں بے گناہ مارے جانے سے بچا لیں بس ہمارے لیے اتنا کر دیں کہ ہم اور ہماری نسلیں بلا خوف و خطر اس آزاد فضا میں سانس لے سکیںاور یہ تب ہوگا جب قانون و انصاف کی حکمرانی ہوگی اور سب کو بلا تفریق انصاف کی فراہمی ہوگی
بہر کیف موجودہ حالات کے نام چند اشعار
روز نفرت کی نئی آگ لگا دیتے ہو،
بے گناہوں کوسر دار چڑھا دیتے ہو
لب پہ پیغام محبت کے ہیں نعرے لیکن،
اسی پیغام کو مٹی میں ملا دیتے ہو
کوئی قانون درندوں کا بھی ہوتا ہوگا،
کون ہو تم جو نہتوں کو جلا دیتے ہو
٭…٭…٭