اُمیدِ بہار رکھ!
ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ حکومت نے پی آئی اے کے تین ہزار پانچ سو ملازمین کے لئے رضا کارانہ ریٹائر منٹ سکیم کی منظوری دی ہے ۔ جس پر بارہ ارب روپے خرچ ہوں گے جبکہ پی آئی اے کو سالانہ چار ارب روپے کی بچت ہو گی۔ موجودہ دَور میں گولڈن ہینڈ شیک کو ایک سنہر ی موقع قرار دیا جارہا ہے کہ ملازمین کو معقول رقم حاصل ہو گی ۔ دوسری جانب پی آئی اے کو یہ فائدہ ہو گا کہ اس کے سالانہ خسارے میں کمی ہو گی ۔ ایک اطلاع کے مطابق اس وقت پی آئی اے کو ہر سال چالیس ارب روپے کا خسارہ برداشت کرنا پڑتا ہے ۔ اس خسارے کی ایک بڑی وجہ ملازمین کی ضرورت سے زیادہ بھرتی ہے۔ گزشتہ تین چار دہائیوں میں یہ زیادتی ہوتی رہی کہ ہر دور ِ حکومت میں بہت زیادہ ملازمین سیاسی بنیادوں پر بھرتی کئے جاتے رہے۔ بد قسمتی یہ بھی ہوئی اس ادارے کی کارکردگی کا گراف بوجوہ نیچے گرتا رہا، چنانچہ آمدن میں بتدریج کمی ہوتی چلی گئی۔ ظاہر ہے، ملازمین اپنی صلاحیتوں کے مطابق کام کرنے کی بجائے مراعات کے حصول میں ہی دلچسپی لیں گے تو ادارہ کب تک یہ عیاشی برداشت کر سکے گا عالم یہ ہے کہ پی آئی اے ، جو ایک دَور میں بہت کامیاب اور مقبول ادارہ تھا، آہستہ آہستہ زوال پذیر ہوتا چلا گیا ۔ اس کا خسارہ پورا کرنے کے لئے ایک کوشش یہ ہوئی کہ امریکہ میں موجود پی آئی اے کی ملکیت ایک تاریخی ہوٹل کو فروخت کردیا جائے۔ایسے معاملات میں عموماًگھپلے کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے۔ چنانچہ ہوٹل فروخت کی خبریں عام ہوئیں تو یہ کہا گیا کہ موجودہ حکومت کے کسی چہیتے کی قسمت چمکے گی کہ اُسے پی آئی اے کا مذکورہ بالا ہوٹل اونے پونے داموں بیچ دیا جائے گا ۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ ہوٹل کی فروخت کے پروگرام کو اسی وجہ سے حتمی شکل دی جا رہی تھی یا نہیں، اطلاعات یہ ہیں کہ ہوٹل بند تو کر دیا گیا ہے مگر فی الحال اس کی فروخت روک دی گئی ہے اور یہ کہا جا رہا ہے کہ کسی پیارے کھلاڑی کی قسمت نہیں جا گی ۔ سوال یہ ہے کہ ہوٹل بند کرنے کا فیصلہ کیوں کیا گیا، اس کی ساکھ بہت بُری طرح متاثر ہوئی ہے ۔ اللہ کرے کہ بہت جلد ہوٹل کو دوبارہ چالو کر دیا جائے۔ اس قیمتی اور تاریخی جائیداد کو مزید نقصان نہ پہنچے۔ایک مثال حال ہی میں سامنے آئی ہے کہ ملائشیا میں بعض ملازمین کو فارغ کیا گیا تو ایک ہوا باز نے اپنے پاس موجودہ رقم سے ایک چھوٹا سا ریسٹورنٹ بنانے کا فیصلہ کیا ۔ اس ہوا باز یعنی پائلٹ نے نوڈلز تیار کر کے فروخت کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا ۔ یہ ریسٹورنٹ ایک ایسے علاقے میں قائم کیا گیا ، جہاں لوگوں کی بڑی تعداد آتی جاتی رہتی ہے ۔ اس ریسٹورنٹ کے اوپن ائیر ایریا میں خود پائلٹ اپنی سفید یونیفارم کے ساتھ موجود ہوتا ہے ۔ پائلٹ آذرن محمد زواوی بہت کم وقت ریسٹورنٹ کی بلڈنگ میں موجود ہوتا ہے ، بیشتر وقت وہ اپنے ریسٹورنٹ کے اوپن ائیر ایریا میں گزارتا ہے ۔ اسے سفید یونیفارم میں دیکھ کر لوگ دلچسپی کا اظہار کر تے ہیں کہ واہ، پائلٹ نے کاروبار کو ترجیح دی ہے ، اچھا فیصلہ ہے ، ہمیں اس کے ریسٹورنٹ کو کامیاب بنانے کے لئے تعاون کرنا چاہیئے۔ ایسی سوچ رکھنے والے لوگوں کی بڑی تعداد اس ریسٹورنٹ میں نوڈلز سے لطف اندوز ہوتی یا پھر وہ لوگ نوڈلز اپنے گھر بھی لے جاتے ہیں۔ یوں سابق پائلٹ کا ریسٹورنٹ گاہکوں سے بھر ارہتا ہے۔ ممکن ہے ، بہت جلد وطن عزیز میں بھی کہیں نہ کہیں پی آئی اے سے سبکدوش ہونے والے ملازمین میں سے بھی کچھ لوگ اسی طرح مختلف حوالوں سے متبادل روز گار کے حصول کے لئے کوشاں نظر آئیں ضروری نہیں کہ ملائیشیا کے پائلٹ کی طرح پی آئی اے کا بھی کوئی سابق پائلٹ اسی طرح کوئی ریسٹورنٹ کھول کر متبادل روزگار کے ذرائع کو یقینی بنائے۔ یہ کوئی ناممکن بات تو نہیں ہو گی ۔ ایسا ہو جائے اس کی امید رکھنی چاہیئے! وہ کہتے ہیںناں کہ امید بہار رکھ!!حالات کے چیلنج کو قبول کرنا چاہیئے۔
٭…٭…٭