شاباش شیریں مزاری، سعید غنی کی بہتر سوچ اور ایل سی سی اے گراؤنڈ پر ہوٹل کی بات!!!!
سننا چاہیے کہ کیا کہا جا رہا ہے یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ کون کہہ رہا ہے۔ اگر کوئی اہم شخص یا کسی سرکاری عہدے پر موجود شخص عوام کی آواز بنے تو اس کی حوصلہ افزائی بھی کرنی چاہیے اور اس کا ساتھ بھی دینا چاہیے اور اگر کوئی مسلمانوں کے دشمنوں کو منہ توڑ جواب دے تو اس کی کھلے دل سے تعریف کرتے ہوئے اظہار بھی کرنا چاہیے اور اگر کوئی نبی کریم صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم کے دشمنوں کا منہ کالا کرے تو ہر حال میں اس کا ساتھ دینا چاہیے جو جہاں ہے، جیسے ہے، جس حال میں ہے، جس حیثیت میں ہے، جیسے کر سکتا ہے ایسے شخص کی حمایت کرنی چاہیے اور اس کے پیغام کو عام کرنا چاہیے، اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ نبی پاک حضرت محمد صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم کی شان میں گستاخی کرنے والے بدبختوں اور شیطان کے پیروکاروں کو منہ توڑ جواب دینے کی ہمت کرنے والا شخص بلاشبہ پاکستان کے کروڑوں مسلمانوں کے دل کی آواز بنتا ہے۔ بقول شاعر انقلاب حبیب جالب
جن کو تھا زباں پہ ناز
چپ ہیں وہ زبان دراز
جب بڑوں بڑوں کی زبانوں پر تالے لگ جائیں اور ان تالوں کے دور میں اگر کوئی فرانس کے شیطان کو للکارے اسے آئینہ دکھائے تو یقیناً اسے مجاہد ہی کہا جائے گا۔ شیریں مزاری بھی کسی مجاہد سے کم نہیں ہیں انہوں نے فرانس کے شیطان کو دلیری کے ساتھ آئینہ دکھایا ہے اور اسے یہ بتایا ہے کہ منہ سنبھال کر بات کرو، اسے بتایا ہے کہ آزادی اظہار کیا ہوتا ہے اور نبی صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم کی تکریم کیا ہوتی ہے۔ شیریں مزاری نے فرانس کے صدر ایمانویل میکرون کا موازنہ نازی جرمنی کی نسل پرستی سے کرتے ہوئے کہا تھا کہ میکرون مسلمانوں کے ساتھ وہی سلوک کر رہے ہیں جو نازیوں نے یہودیوں کے ساتھ کیا تھا۔ فرانس نے وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق کے اس بیان کو اپنے صدر کی توہین سمجھا اور سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان نے معافی کا مطالبہ کیا تھا لیکن شیریں مزاری جو حقیقی معنوں میں دلیر سپاہی کی ردعمل دے رہی تھیں انہوں نے فرانس کے شیطانوں کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ فرانس سے معافی نہیں مانگوں گی۔ ڈاکٹر شیریں مزاری کے اس بیان اور شیطانوں کی ناراضگی کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے معافی مانگنے سے انکار کیا اور اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے کہا کہ مغرب آزادی اظہار رائے کے نام پر منافقت اور تکبر سے کام لے رہا ہے، فرانسیسی صدر کے بارے ٹوئٹ پر ان کو توہین محسوس ہوتی ہے اور تاجدارِ انبیاء خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم پر ہتک آمیز حملے کو اظہار رائے کی آزادی کہا جاتا ہے۔ شیریں مزاری کا جواب درست ہے۔ بنیادی طور تو حکومت پاکستان کو شیریں مزاری کی جگہ میکرون کو جواب دینا چاہیے۔ پاکستان کے کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے والے شیطانوں کو ان کی زبان میں جواب دینا چاہیے۔ نبی کریمؐ کی ناموس بھیک میں لینے کی چیز نہیں ہے۔ حرمت رسول ؐ کے لیے ترلے کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔
اگر کم بائیس تییس کروڑ مل کر بھی ناموس رسالت پر عملی کام نہ کر سکیں تو ہمیں زندہ رہنے کا کیا حق ہے، یہ کائنات اللہ کے نبی ؐ کی ہے، یہ عزتیں، مرتبے، طاقتیں، شان و شوکت صرف اللہ کے نبی ؐکے نام پر بنے اس ملک کی وجہ سے ہیں اور اسی ملک میں رہتے ہوئے بھی حرمت رسول ؐ کے معاملے پر مصلحتوں کا شکار رہیں گے روز محشر کیا منہ لے کر حضور صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم کی خدمت میں پیش ہوں گے۔ نمائشی بیانات تو عام انسانوں کے لیے ہیں۔ حکمرانوں کو تو طاقت سے جواب دینا چاہیے۔ کسی خوف اور خطرے کے بغیر جواب دینا چاہیے۔ شیریں مزاری کہتی ہیں کہ فرانس توقع کرتا ہے کہ ہم اظہار رائے کی آزادی کا احترام کریں تو پھر میکرون کی باری پر یہ آزادی کہاں چلی جاتی ہے؟ یہ سب سے بہتر جواب ہے۔ میرے بیان سے انہین توہین محسوس ہوئی لیکن جب وہ ہمارے پیغمبر صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم پر حملہ کرتے ہیں، قرآن جلاتے ہیں تو ہمیں غصہ نہیں آتا؟ مسلمانوں کو توہین محسوس نہیں ہوتی۔ واہ واہ شیریں مزاری واہ۔ آپ نے کمال کر دیا ہے کہ اس شیطان کو اس اظہار رائے کی آزادی کا استعمال کرتے ہوئے اس سے بہتر کوئی جواب نہیں دیا جا سکتا آپ نے دل جیت لیے ہیں۔ اس موقف پر قائم رہیں اور آئندہ بھی ان شیطانوں کے ساتھ ایسے ہی سختی سے پیش آئیں، ان سے کسی قسم کی نرمی نہیں ہونی چاہیے۔ آزادی اظہار کے یہ نام نہاد علمبردار مسلمان خواتین کو حجاب پہننے سے بھی روکتے ہیں اس وقت انہیں اظہارِ رائے کی آزادی نظر نہیں آتی لیکن جب ان کی دم پر پاؤں رکھا جاتا ہے اس وقت انہیں تکلیف محسوس ہوتی ہے۔ نہیں تکلیف میں رہنے ان شیطانوں کے خلاف کے الفاظ تو بہت کم ہیں ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جانا چاہیے جس کے یہ حقدار ہیں ان شاء اللہ وہ وقت بھی آئے گا جب ہم ان شیطانوں سے ان گستاخیوں کا بدلہ لیں گے۔ ان شاء اللہ ضرور لیں گے۔
لیجئے جناب اور تو کچھ ہوا نہیں اور تبدیلی سرکار نے لاہور کی تاریخی کرکٹ گراؤنڈ ایل سی سی اے پر ہوٹل کی تعمیر بارے سوچ بچار شروع کر دی ہے۔ اس سے پہلے منٹو پارک کی کرکٹ کو میاں شہباز شریف تباہ و برباد کر گئے تھے۔ منٹو پارک کے بعد ایل سی سی اے تاریخی گراؤنڈ تھا اگر اسے بھی ختم کر دیا تو لاہور کے سینکڑوں کرکٹرز کہاں جائیں گے۔ جس کسی نے بھی یہاں ہوٹل تعمیر کرنے کی اجازت دی ہے اسے کھیل کی تو سرے سے ہی سمجھ نہیں ہے۔ نا ہی اس کی ملک کے نوجوانوں میں کوئی دلچسپی ہے یہی وجہ ہے کہ ایسی تجویز پیش کی گئی ہے اس حکومت میں اور ہو بھی کیا سکتا ہے۔ جب محکموں اور علاقائی تنظیموں کی ٹیمیں ختم کر کے نوجوانوں سے کھیل کے مواقع چھین لیے جائیں تو پھر کھیل کے میدانوں کی جگہ ہوٹل ہی لیتے ہیں۔ خبر بتاتی ہے کہ پنجاب کے وزیر کھیل رائے تیمور اس تاریخی گراؤنڈ کو بچانے کے لیے متحرک ہیں لیکن وزیر موصوف کے لیے تو اپنی وزارت بچانا ہی مشکل ہوتا جا رہا ہے کیونکہ دو سال سے انہیں کچھ کرنے نہیں دیا جا رہا، نیب کے چھاپوں نے سب کو پریشان کر رکھا ہے اور افسران رائے تیمور کے راستے کی بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں ان حالات میں ایل سی سی اے گراؤنڈ کو بچانے کے لیے رائے تیمور کے ساتھ اس میدان میں کھیلنے والوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ پنجاب حکومت اس تاریخی کرکٹ گراؤنڈ کو تباہ کرنے سے باز رہے۔ کھیل کے میدانوں کو ختم کر کے نوجوانوں کو منفی سرگرمیوں میں دھکیلنے کے اس منصوبے سے دور رہیں۔ یہ صرف کرکٹ گراؤنڈ نہیں ہے ہماری بہترین تاریخ ہے۔ اس کی حیثیت صرف ایک کرکٹ گراؤنڈ کی نہیں تاریخی ورثے کی ہے۔ یہ گراؤنڈ اپنے اندر دہائیوں کے واقعات سموئے ہوئے ہے۔ اصولی طور پر اسے بہتر بنانے کے لیے کام ہونا چاہیے اسے تباہ کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
وفاقی حکومت نے ایک مرتبہ پھر سکولوں کو بند کر کے بچوں کو آن لائن تعلیم پر مجبور کیا ہے جب کہ بازاروں کے لیے بھی چھ بجے تک کا وقت مقرر کر دیا ہے۔ سکولوں کو بند کر کے بچوں کی تعلیم کا حرج کیا جا رہا ہے۔ حکومت احتیاطی تدابیر پر عمل کروانے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ کرونا کے شدید حملوں کے دوران جب حکومت خود جلسے کرتی رہے گی تو پھر بچوں کو سکول جانے کے بنیادی حق سے کیسے محروم رکھا جا سکتا ہے۔ حکومت کا فرض تھا کہ وہ احتیاطی تدابیر پر عمل کرتی اور عوام سے بھی عمل کرواتی لیکن نا حکومت نے خود عمل کیا اور عوام کو بھی آزادی دیے رکھی۔ اب حکومت کی غلطیوں کی سزا طالب علموں کو دی جا رہی ہے۔
سندھ کے وزیر تعلیم سعید غنی کی طرف سے پیش کی جانے والی تجاویز حقیقت پر مبنی اور قابل عمل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ رواں سال تعلیمی اداروں میں تمام غیر تدریسی سرگرمیاں بند کر دی جائیں۔ ان کی طرف سے سب اہم پہلو یہ تھا کہ کسی بغیر امتحانات کے بچوں کو اگلی کلاسز میں پروموٹ نہیں کیا جائے گا۔ اس بات پر سب کو زور دینا چاہیے ہم ہر وقت بچوں کی تعلیم پر حملہ کرنے میں پہل کرتے ہیں یہ کوئی طریقہ نہیں ہے پہلے ہی کروڑوں بچے تعلیم کے بنیادی حق سے محروم ہیں اور جو جا رہے ہیں انہیں حکومت روک رہی ہے۔ حکمرانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے حالات پیدا کرے کہ تعلیم کا حرج نہ ہو یہ کوئی پالیسی نہیں کہ سب سے پہلے سکول بند کر دیں۔ اس معاملے میں تمام سیاسی جماعتوں کو سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قوم کے بچوں کی بہتر تعلیم کی خاطر سعید غنی کی حمایت کرنی چاہیے۔